Maktaba Wahhabi

265 - 495
لکھتے ہیں کہ''مخاطر ہ جوا ہے۔''(احکام القرآن :ص 1/329) دوسرے مقام پر جوئے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں:''جوئے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کو فکر اور اندیشے کی بنا پرمال کا مالک بنادیا جائے۔(احکام القرآن :ج11'465) یعنی نتائج سے قبل کسی موہوم خطرہ کے پیش نظر فکر اور اندیشے میں مبتلا ہونا ہے کہ اسے کیا ملے گا۔کم یازیادہ یا محروم رہے گا۔جوئے میں جو رقم ملتی ہے وہ محنت یا کسی خدمت کا صلہ نہیں ہوتی بلکہ محض اتفاقی امور پر ا س کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔بعینہ یہ صورت حال انعامی سکیموں میں پائی جاتی ہے۔بعض لوگ اسے انعام کہہ کر جائز سمجھتے ہیں حالانکہ اس طرح کسی کو دی جانے والی رقم کو کسی صورت میں انعام نہیں کیاجاسکتا کیونکہ : 1۔انعام حسن کارگردگی یا اعلیٰ خدمات کاصلہ ہوتا ہے جبکہ اس میں ایسا نہیں ہوتا۔ 2۔انعام حاصل کرنے والے سے کچھ وصول نہیں کیا جاتا جبکہ انعامی سکیموں میں شمولیت کے لئے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ 3۔انعام میں کچھ وجوہ ترجیح ہوتی ہے، جبکہ ان سکیموں میں کامیابی کی بنیاد محض ''اتفاق'' ہے۔ اس کاروبار کے حرام ہونے کے لئے یہی کافی ہےکہ اس میں جمع شدہ رقم سے کچھ حصہ تقسیم کرکے باقی رقم ہڑپ کرجانا، لوگوں کا مال ناجائز ذرائع سے کھانا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سےمنع فرمایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:''تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے مت کھاؤ۔''(4/النساء :29) لہذا جن حضرات نے اسے جوئے کی قسم قرار دیتے ہوئے حرام اور ناجائز کہا ہے وہ برحق اور ان کا موقف بالکل صحیح اور درست ہے۔قسمت آزمائی کا سہارا لےکر اسے درست کہنا بھی صحیح نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ قسمت آزمائی جس کی بنیاد محض وہم وگمان اور اتفاقی امر پر ہو وہ ناجائز ہے جیسا کہ قرآن کریم میں تیروں کے ذریعے قسمت آزمائی کو حرام ٹھہرایا گیا ہے۔ فرمان ربانی ہے:''تمہارے لئے یہ بھی حرام ہے کہ تم پانسوں کے ذریعے اپنی قسمت معلوم کرو۔''(5/المائدہ :3) اس کے علاوہ اسلام میں قرعہ اندازی کی وہ سادہ سی صورت کو جائز کہا گیا ہے جس میں دو مساویانہ حقوق رکھنے والوں کے درمیان فیصلہ کیاجاتا ہے،لہذا ایسی قرعہ اندازی جس میں قرعہ ڈالنے والوں کے حقوق مساوی نہ ہوں بلکہ صرف سکیم میں شمولیت کی وجہ سے ان کا حق تسلیم کیا جائے اسے قمار اور جوا کہا جاتاہے۔ ایک مسلمان کے لئے ان سے بچنا ضروری ہے۔ سوال۔صوبہ بلوچستان سے عبد الرحمٰن کھوسہ لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست نے اپنی دوکان کے لئے انعامی پیکٹ خریدا جس میں چند پرچیاں ہوتی ہیں۔فی پرچی ایک روپیہ کے حساب سے اسے فروخت کیا جاتا ہے۔کچھ پرچیاں خالی ہوتی ہیں اور کچھ میں ایک روپیہ کے برابر مالیت کاانعام ہوتا ہے اور بعض میں ایک روپیہ سے زیادہ بھی انعام لکھا ہوتا ہے اگر یہ پیکٹ فروخت ہوجائے تو بیس پچیس روپے نفع ہوتا ہے۔آیا شرعاً یہ کاروبار جائز ہے۔۔۔؟ جواب۔یہ کاروبار شرعاً ناجائز ہے کیوں کہ اس میں محض اتفاق سے قسمت آزمائی کی جاتی ہے۔اور اس قسم کی لاٹری دور جاہلیت میں بھی رائج تھی جسے قرآن کریم نے حرام کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب، جوا ،تھا ن اور قسمت
Flag Counter