کے نفع اور نقصان کامالک گروی رکھنے والاہے۔'' اسے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند اور امام دارقطنی نے اپنی سنن میں بیان کیاہے اور کہا ہے کہ اس کی سند حسن متصل ہے، علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نیل الاوطار میں لکھتے ہیں کہ شئ مرہون کا نفع ونقصان راہن کاہے۔ اس میں جمہور کے مذہب کی دلیل ہے۔اما م شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور علماء ءنے کہا کہ مرتہن، گروی شدہ چیز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ہر قسم کانفع ونقصان گروی رکھنے والے کاہے۔ا س لئے کہ شریعت نے نفع ونقصان کا ذمہ دار گروی رکھنے والے کو ٹھہرایا ہے۔جب احادیث سے یہ دونوں باتیں ثابت نہیں تو معلوم ہوا کہ زمین مرہونہ سے مرتہن کو نفع اٹھانا جائز نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین مرہونہ کا قیاس سواری کے جانور پر صحیح نہیں ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ ص259ج2۔واللہ اعلم بالصواب) واضح رہے کہ فتویٰ میں مذکورہ حدیث کہ گروی شدہ چیز کو راہن سے روکا نہیں جاسکتا۔ اس کے نفع ونقصان کامالک گروی رکھنے والا ہے۔اسے امام حاکم نے بیان کیا ہے۔(مستدرک حاکم :2/51) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آخری الفاظ مدرج ہیں جو حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے بطور تفسیر کہے ہیں۔تاہم امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ہے کہ آخر ی الفاظ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس حدیث کامفہوم یہ ہے کہ اگر کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز گروی رکھی ہے تو اسے اس چیز سے فائدہ لینے کا پورا پورا حق ہے۔گروی قبول کرنے والے کو ا س میں رکاوٹ نہیں بنناچاہیے۔ اگر وہ قرض دار یا قرض خواہ سے ہلاک ہوجائے تو اس سے قرض لینے والے کا حق ساقط نہیں ہوگا۔کیوں کہ یہ نقصان مقروض کا ہوا ہے، جس نے اپنی کوئی چیز قرض وصول کرنے والے کے پاس بطور گروی رکھی تھی۔ لیکن بعض دوسرے فقہاء اس حدیث کا مفہوم بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ اگر وقت مقررہ تک مقروض اپنے ذمے سے قرض نہ اتار سکے تو مرتہن کو گروی شدہ چیز ضبط کرلینے کاحق نہیں بلکہ اسے قرض کی ادائیگی کے لئے فروخت کیاجائےگا۔اگر ا س کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے تو اس کا فائدہ گروی رکھنے والے کو ہوگا،یعنی زائد رقم مقروض کو واپس کردی جائےگی اور اگر اس کی قیمت قرض سے کم ہے تو مقروض کے ذمے ہے کہ وہ اس کی تلافی کرے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا مفہوم ہی درست ہے کیوں کہ قرآن کریم کے مطالعہ سےمعلوم ہوتاہے کہ قرض کی ادائیگی تک گروی شدہ چیزپرقرض لینے والے کاقبضہ تسلیم کیاگیا ہے۔ اگرچہ حق ملکیت و مقروض کا ہے،لیکن حق وثیقہ قرض لینے والے کاتسلیم شدہ ہے۔مقروض کو اپنی چیز سے انتفاع کا حق دینا اس کے قبضے کے منافی ہے جو قرآن کریم نے اسے دیا ہے۔پھر یہ تفسیر ابراہیم نخعی ،حضرت طاؤس ،سفیان ثوری اور امام زہری رحمۃ اللہ علیہم سے منقول ہے۔ حافظ عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے عدم جواز پر ایک عجیب استدلال پیش کیا ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے ایک لونڈی خریدی، بیوی نے شرط لگائی کہ اگر آپ اسے کسی دوسرے کو فروخت کریں تو جتنی قیمت سے فروخت کرنا طے ہو ، اتنی ہی قیمت سے یہ میری ہوگی۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :'' کہ ایسے حال میں آپ لونڈی کے قریب نہ جائیں جبکہ اس میں کسی کے لئے کوئی شرط موجود ہو۔'' |