Maktaba Wahhabi

256 - 495
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ حدیث بخاری پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں''کہ یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو مرہونہ چیز سے فائدے کے قائل ہیں، جبکہ اس کی نگہداشت کی جائے اگرچہ اصل مالک اجازت نہ دے۔ایک گروہ کا خیال ہے کہ مرتہن کو اٹھنے والے ا خراجات کے مقابلے میں صرف سواری کرنے اور دودھ لینے کا حق ہے۔ اس کے علاوہ اور کسی قسم کا فائدہ نہیں لیاجاسکتا، جیسا کہ حدیث کے مفہوم سے متبادر ہے۔البتہ جمہور اہل علم کاموقف ہے کہ جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی ہوئی ہے۔وہ اس چیز سے کسی قسم کافائدہ نہیں اٹھاسکتا ۔مذکورہ حدیث کے متعلق ان کا یہ موقف ہے کہ اس میں فائدہ اٹھانے کا ذکر ہے اور ایسا کرنا خلاف قیاس ہے۔لہذا موردنص پر منحصر رہے گا۔ لہذا اس پر مزیدقیاس کرکے انتفاع کادروازہ کھولناصحیح نہیں ہے۔خلا ف قیاس اس لئے ہے کہ اس میں اصل مالک کی اجازت کے بغیر سواری کرنے اور دودھ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔حدیث میں ہے کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی جانور کا دودھ نہ حاصل کیاجائے۔(صحیح بخاری :اللقطہ 2425) پھر اس میں استفادہ کا حق صرف اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے ہے،قرضے کے عوض فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔(فتح الباری :5/178) اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا یک فتویٰ مع سوال درج کردیاجائے۔ سوال یہ ہے کہ اگرکسی شخص نے زمین رہن رکھی تو مرتہن کو اس سے نفع اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟نیز زمین مرہونہ کاقیاس سواری اور دودھ کے جانور پر صحیح ہے یا نہیں؟ اس کا جواب بایں الفاظ دیا گیا ہے کہ شئ مرہون سے اس پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے مرتہن کا نفع اٹھاناجائز ہے۔ یعنی جب سواری یا دودھ کا کوئی جانورمرہون ہو اور اس کے دانہ اورگھاس وغیرہ کا خرچہ مرتہن کے ذمے ہوتو مرتہن کو جائز ہے کہ اپنے اخراجات کے بقدر جانور مرہون پر سواری کرے اور دودھ پیئے اور اسے اپنے اخراجات سے زیادہ نفع اٹھانا جائز نہیں ۔مثلاً گائے مرہون پر مرتہن روزانہ کاخرچہ دو روپیہ ہوتاہے اور گائے روزانہ چار روپے کا دودھ دیتی ہو تو اسے صرف دو رو پیہ کے بقدر دودھ پیناجائز ہے۔اور باقی دوروپے کا دودھ راہن کا ہے اور مرتہن کو باقی دودھ پینا جائز نہیں ہے۔ اگراسے پیئے گا تو سود میں داخل ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کہ اگر سواری کا جانوررہن ہو تو اخراجات کے معاوضہ میں اس پر سواری کی جائےگی۔اوردودھ والے جانور کا دودھ خرچہ کےمعاوضہ میں پیا جائے گا اور جو سواری کرے گا اوردودھ پیئے گا وہی خرچہ برداشت کرے گا۔''(صحیح بخاری) نیز بخاری میں ابراہیم نخعی سے مر وی ہے کہ گم شدہ جانور پرسواری بھی چارہ کے عوض کی جائے گی اوردودھ والے جانور کا دودھ بھی چارہ کے عوض پیاجائے گا اور رہن کا بھی یہی حکم ہے۔ فتح الباری میں اس کی مزید وضاحت ہےکہ اگر کوئی مرتہن کے پاس دودھ دینے والا جانور رہن رکھے تو مرتہن کوچارہ کی قیمت کے برابردودھ لیناجائزہوگا اگر زیادہ لے گاتو سود ہوگا۔ دوسری بات یہ ہےکہ سواری اوردودھ کے جانور کے علاوہ دوسری کسی مرہون چیز کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ اس کا ثبوت نہیں بلکہ اس کی ممانعت ہے۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''گروی شدہ چیز کو راہن سے روکا نہیں جاسکتا ،اس
Flag Counter