ہمارے نزدیک یہ آخری موقف کچھ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے، البتہ اس میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر گروی شدہ چیز دودھ دینے والا یاسواری کے قابل کوئی جانور ہے تو اس کی حفاظت ونگہداشت پر اٹھنے والے اخراجات کے بقدر اس سے فائدہ بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں اصل مالک کے ذمہ اس کی حفاظت ونگہداشت کا بوجھ ڈالنا فریقین کے لئے باعث تکلیف ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''کہ سواری کا جانور اگر گروی ہے تو اس پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے سواری کی جاسکتی ہےاور اگر دودھ دینے والا جانورہے تو اخراجات کی وجہ سے اس کا دودھ پیا جاسکتا ہے۔اور جوسواری کرتا ہے یا دودھ پیتا ہے اس کے ذمہ اس جانور کی حفاظت ونگہداشت کے اخراجات ہیں۔''(صحیح بخاری :الرھن 2512) واضح رہے کہ سواری کرنے یادودھ پینے کی منفعت اس پراٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے ہے اور اس سے مراد اصل مالک نہیں بلکہ وہ آدمی ہےجس کے پا س گروی رکھی گئی ہے۔کیونکہ بعض روایات میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (دارقطنی :البیوع 2906) نیزاخراجات برداشت کرنے کے بدلے وہی شخص فائدہ لے سکتا ہےجس کے پاس گروی رکھی گئی ہے۔کیوں کہ اصل مالک کاانتفاع تو اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ا س کے مالک ہونے کی بنا پر ہوتا ہے۔نیز یہ فائدہ بھی اپنے استعمال کی حد تک ہے، اس دودھ کو بیچنا یا سواری کے جانور کوکرایہ پردینا درست نہیں ہے۔ بعض حضرات اس حد تک احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ اخراجات سے زائد فائدہ نہیں اٹھاناچاہیے، چنانچہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں'' کہ اگر سواری کا جانور گروی رکھا گیاہے تو اس پر اخراجات کے بقدر سواری کی جاسکتی ہے۔اسی طرح دودھ کے جانور سے چارے کے بمقدار دودھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔''ایک روایت میں ہے کہ چارے کی قیمت سے زائد دودھ حاصل کرنا سود ہے۔(فتح الباری :5/178) لیکن ا س قدر باریک حساب و کتاب محض تکلف ہے۔اگرگروی شدہ چیز ایسی ہےکہ اس کی حفاظت ونگہداشت پر کچھ خرچ کرنانہیں ہوتا ،مثلا زیورات یا قیمتی دستاویزات وغیرہ تو ایسی چیز سے فائدہ لینا درست نہیں ہے۔کیوں کہ ایساکرنا گویا اپنے قرض کے عوض فائدہ اٹھانا ہے۔جس میں سود کاواضح شائبہ ہے۔اگر گروی شدہ چیززمین کی صورت میں ہے جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے تو اس کے متعلق ہمارے برصغیر کے علماء میں اختلاف ہے۔مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف کی ذکر کردہ حدیث پرقیاس کرتے ہوئے گروی شدہ زمین سے فائدہ اٹھانے کے جواز کافتویٰ دیا ہے۔جیسا کہ فتاویٰ ثنائیہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔(409/1)فتاویٰ ثنائیہ میں ہی مولاناشرف الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مفصل جواب دیاہے کہ دعویٰ عام کے لئے دلیل بھی عام ہی درکار ہوتی ہے۔پھر یہاں عام یا غیر مخصوص کو منصوص مخصوص پر قیاس کیا گیاہے۔ اور یہ بھی قاعدہ ہے کہ جو حکم خلاف قیاس ہو وہ مورد نص پر منحصر رہتا ہے۔کیوں کہ اصل اموال میں حرمت قطعی ہے، اس لئے جب تک صحیح دلیل سے حلت کی تصریح نہ ہو قیاس سے اس کی حلت ثابت نہ ہوگی۔ خصوصا جو حکم خلاف قیاس ہو اس پر قیاس نہیں کیاجاسکتا۔فتاویٰ ثنائیہ میں یہ بحث طویل اور لائق مطالعہ ہے۔ سید نذیر حسین محدث دہلوی،مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری،مولانا عبد الوہاب،مولانا سید عبد الجبار بن عبد اللہ غزنوی اور مولانا حافظ عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہم عدم جواز کے قائل ہیں۔ |