قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ خانہ نمبر 14 کے مندرجات کابغور مطالعہ کریں۔حرف آخر جی پی فنڈ کے متعلق ہماری آخری گزارش یہ ہے کہ صرف اپنی اصل کٹوتی پر اکتفا کیاجائے ،سود وغیرہ لینے کا لالچ نہ کرے کیوں کہ اس کے متعلق قرآن وحدیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:'' کہ میری اُمت پر ایسا بُرا وقت آئے گا کہ لوگ سود کو استعمال کریں گے۔عرض کیاگیا کہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے؟فرمایا:کہ جولوگ سودسے اپنے دامن کو بچانے کی کوشش کریں گے انہیں بھی اس کی غبار ضرور آلودہ کرے گی۔''(مسند امام احمد :2/493) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ سود کو بھی ترک کردو اور جس کے متعلق تمھیں شبہ پڑ جائے اس سے بھی اجتناب کرو۔''(مسند امام احمد :1/36) اس سلسلے میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ''جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آیندہ کے لئے سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا سو کھا چکا اس کامعاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اس حرکت کااعادہ کرے وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔''(2/البقرہ:275) ہم نے قارئین کو اپنے رب کی نصیحت پہنچادی ہے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔(آمین ) سوال۔تھنہ ضلع اٹک سے مولانا محمد اسحاق سلفی (خریداری نمبر3118) لکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں لوگ کئی کئی سال کے لئے قرضہ لے کر اپنی زمین گروی رکھتے ہیں، پھر قرضہ دینے والا اس عرصہ میں بلاشرکت غیرے اس زمین سے پیداوارلیتاہے۔ کیا ایساکرناشریعت کی رو سے جائز ہے۔؟مجھے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ نے جواز کافتویٰ دیاہے۔آپ اس سلسلے میں ہماری راہنمائی فرمائیں کہ گروی رکھی ہوئی چیز سے کس حد تک فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے؟ جواب۔قرض دینے کے بعد ا س کی واپسی کو یقینی بنانے کےلئے مقروض کی کوئی چیز اپنے پاس رکھنا گروی کہلاتاہے۔قرآن کریم سے معلوم ہوتاہےکہ دوران سفراگر قرض کی دستاویز تیار کرنے والا کوئی کاتب نہ ملے تو گروی کا معاملہ کیاجاسکتاہے۔البتہ احادیث سے سفر کے علاوہ حضر واقامت میں بھی اپنی کوئی چیز کسی دوسرے کے پاس رکھ کر قرض وغیرہ لیا جاسکتا ہے،اس گروی شے سے فائدہ لینے کے متعلق علماء حضرات کی مختلف آراء ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: 1۔مطلق طور پر گروی شدہ چیز سے فائدہ لیاجاسکتا ہے یہ جائز اور مباح ہے۔ 2۔گروی چیز کی بنیاد قرض ہےاور جس نفع کی بنیاد قرض ہو وہ سود ہوتا ہے۔لہذا گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانا سود کی ایک قسم ہے اور ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ 3۔حقیقت کے اعتبار سے گروی شدہ چیز چونکہ اصل مالک کی ہے، اس لئے اس کی حفاظت اور نگہداشت کرنا ،اس کی ذمہ د اری ہے۔اگر ایسا کرنا ناممکن یا دشوارہو یا وہ از خوداس ذمے داری سے دستبردار ہوجائے تو جس کے پاس گروی رکھی ہے وہ بقدر حفاظت ونگہداشت اس سے فائدہ اٹھانے کا مجاز ہے۔ |