Maktaba Wahhabi

258 - 495
(مؤطا امام مالک ،باب مایفعل فی الولیدۃ اذ بیعت والشرط فیہا) اس حدیث سے گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانا ناجائز ثابت ہوا، کیوں کہ جب بیع میں صرف ایک شرط ہونے کی صورت میں فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے تو گروی شدہ چیز جس میں اصل مالک کا پورا پورا حق ہوتاہے،اس سے فائدہ اٹھانا کس طرح جائز ہوگا۔ (فتاویٰ اہلحدیث :2/271) اس کے عدم جواز پر بعض ضعیف احادیث بھی بطور تائید پیش کی جاسکتی ہیں۔چنانچہ مولانا عبد اللہ بن عبد الجبار غزنوی اپنے فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ: ''اللہ کے فضل سے قاعدہ کلیہ کے علاوہ خاص مسئلہ میں دو حدیثیں مل گئی ہیں جو اس باب میں نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حدیث اول: حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جو کوئی قرض کے بدلے اپنی زمین کو کسی کے پاس رہن رکھے تو زمین کی پیداوار میں سے بعد وضع اخراجات جو باقی بچے وہ قرض میں محسوب کیاجائے،مزدوری اور خرچ جوکچھ ہوا ہو، اسے بھی انصاف کے ساتھ لگائے۔اس حدیث کو مصنف عبدالرزاق میں روایت کیا گیاہے۔ حدیث دوم: طاؤس تابعی کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی کتاب میں لکھاہوا تھا''کہ جوکوئی کسی کی زمین گروی رکھے تواس کی پیداوار قرض میں محسوب کرے اور یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں دیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایاتھا۔(مصنف عبد الرزاق) یہ احادیث صورت مسئولہ کے عدم جواز پر نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان کی صحت کے متعلق ہمیں مکمل یقین نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک زمین کا اصل مالک قرض لینے والا ہے۔اس لئے ا س کاحق ہے کہ وہ اسے خودکاشت کرکے اس سے نفع حاصل کرے، البتہ قرض کی واپسی یقینی بنانے کےلئے اپنی زمین سے متعلقہ کاغذات رجسٹری اوردیگر دستاویزی ثبوت دائن اپنے پا س رکھے۔اگر کسی وجہ سے ایسا ناممکن ہو تو جس کے پاس زمین گروی رکھی گئی ہے وہ خوداسے کاشت کرے اوراس پراٹھنے والے اخراجات کو منہا کرکے نفع وغیرہ کو دو حصوں میں تقسیم کرلیاجائے ،ایک حصہ اپنی محنت کے عوض خودرکھ لے اور دوسرا حصہ زمین کے اصل مالک کو دے دیاجائے۔یاحصہ دینے کی بجائے اس کے قرض سے اتنی رقم منہاکردے۔یا رائج الوقت اس زمین کا جتنا ٹھیکہ ہو سالانہ شرح کے حساب سے اس کے قرض سے منہا کردیاجائے ،اس طرح قرض کی رقم جب پوری ہوجائےگی تو زمین اصل مالک کو واپس کردی جائے، اس سلسلہ میں رائج الوقت مندرجہ ذیل دوصورتیں بالکل ناجائز اورحرام ہیں۔ 1۔جس کے پاس زمین گروی رکھی جائے وہ اسے خود کاشت کرے اور اس کی پیداوار خود ہی استعمال کرتا رہے، اصل مالک کو بالکل نظر انداز کردیا جائے۔ 2۔اگر وقت مقررہ پر قرض وصول نہ ہوتو گروی شدہ زمین کو بحق قرض ضبط کرلیا جائے۔ یہ دونوں صورتیں صریح ظلم اور زیادتی کا باعث ہیں۔لہذا ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔میاں چنوں سے محمد انور دریافت کرتے ہیں کہ گروی شدہ زمین سے فائدہ لینے کی شرعی حیثیت کیا ہے کیا اسے سود قرار دیاجاسکتاہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
Flag Counter