Maktaba Wahhabi

251 - 495
سکتے ہیں۔دور حاضر میں''مجبوری''ایک ایسی مکروہ کیفیت کا نام رہ گیا ہے جس کا اسلام میں قطعا ً کوئی وجود نہیں ہے۔وقت اور حالات کو بدلنے کے بجائے ہم نے ایسی معذرتوں سے سازگاری پیداکرلی ہے جس کے بعد مجبوری، مجبوری نہیں رہتی بلکہ معصیت اور مجرمانہ غفلت بن جاتی ہے۔لہذا ایسی مجبوریوں کے سہارے جو بھی خلاف شرع کام کیا جائے گا، اسے شرعی معذرت کے نام پر حلال یاجائز قرار نہیں دیا جاسکتا، مجبوریاں ناسازگارحالات اور نامساعد ظروف کا حاصل ہوتی ہیں۔ جو لوگ ناسازگار فضاؤں کو بدلنے کےلئے اپنے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اسلام میں ایسے افراد کی معذرتوں کو تاتبدیلی حالات قبول کیا جاتا ہے، جہاں ایسی بات نہیں ہوتی وہاں اسلام ایسی مجبوریوں اور معذرتوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ یہ بہانہ سازی کی وہ مکروہ صورت ہے جسے اسلام دشمنی سے تعبیر کیا جائےگا۔ ہاں اگر قرآن کی بیان کردہ اضطراری حالت پیدا ہوجائے تو سود جیسی خبیث اور پلید چیز کو استعمال کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جو شخص بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر ان(حرام اشیاء ) میں سے کوئی چیز استعمال کرلے بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''(5/المائدہ :3) دوسرے مقام پر اس اضطراری اور اس کی حد بندی کی مزید وضاحت ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ہاں جوشخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان(حرام اشیاء) میں سے کوئی چیز کھالےبغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔''(2/البقرہ :173) ان آیات پر غو ر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام چیز استعمال کرنے کی اجازت چار شرطوں سے دی گئی ہے۔ 1۔واقعی مجبوری کی حالت میں مبتلا ہو مثلاً :بھوک پیاس سے جان پر بن گئی ہو یا بیماری کی وجہ سے جان خطرے میں ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے علاوہ اور کوئی میسر نہ ہو۔ 2۔ اللہ کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل کے نہاں خانہ میں پوشیدہ نہ ہو۔ 3۔ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔مثلاً تھوڑی مقدار میں حرام چیز سے اگر جان بچ سکتی ہے اس سے زیادہ مقدار استعمال نہ کی جائے۔ 4۔حرام کے استعمال سے کسی نافرمانی یا معصیت کے ارتکاب کا ارادہ نہ ہو۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر بہانے باز لوگوں کاتذکرہ بایں الفاظ ہوا ہے۔ ''جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور اور مجبور تھے، فرشتوں نے کہا:کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم اور بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔''(4/النساء :97) اللہ تعالیٰ نے بہانہ ساز لوگوں کی معذرت کوقبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔آج کل ہمارا بھی یہی حال ہے کہ ہم رخصتوں کا دامن تھامنے میں کوئی سستی نہیں کرتے لیکن اپنی ذمہ داریوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے بلکہ اگر سوئی کے سوراخ جتنی رخصت ہوتو اس سے اونٹ گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔العیاذ باللہ۔ایسا کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
Flag Counter