بالکل مختلف ہے بظاہر اصل کٹوتی کے مقابلے میں سودی ر قم زیادہ قیمتی ہے لیکن آیت میں بیان کردہ معیار کے مطابق یہ سودی رقم ناپاک ہے۔اور ملازم کی اصل کٹوتی پاک ہے۔ ناپاک خواہ مقدار میں کتنا ہی زیادہ ہوبہرحال وہ پاک کے برابر کسی طرح نہیں ہوسکتا۔سودی رقم مقدا ر میں زیادہ ہے معیار میں اعلیٰ نہیں ہے۔ اصل کٹوتی مقدار میں بہت کم ہے لیکن معیار کے لحاظ سے بہت برتر ہے، یہ تو ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ غلاظت کے ایک ڈھیر سے عطر کا ایک قطرہ زیادہ قدررکھتا ہے۔پیشاب کے ایک لبریز جوہڑ سے پانی کا ایک چلو زیادہ وزنی ہے، لہذا ایک دانا اور ایک سچے صاحب ایمان کو حلال پر ہی قناعت کرنا چاہیے خواہ وہ کتنا ہی حقیر اور قلیل ہو اور حرام کی طرف کسی حال میں بھی ہاتھ نہیں بڑھانا چاہیے خواہ وہ بظاہر کتنا ہی زیادہ اور شاندار ہو۔ اللہ تعالیٰ کا قانون فطرت یہی ہے کہ سود اخلاقی روحانی او ر تمدنی ترقی میں نہ صرف رکاوٹ بنتا ہے بلکہ تنزل کا باعث ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اللہ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشو نمادیتا ہے۔'' یہ ایک حقیقت ہے کہ سود کا انجام غربت اور ذلت ورسوائی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:''سود کی مقدار خواہ کتنی زیادہ ہو آخر یہ غربت اور افلاس کی طرف لے جاتا ہے۔''(مسند امام احمد :1/395) ان حقائق کے پیش نظر ہمارا یہ موقف ہے کہ سودی رقم کو کسی صورت میں نہ وصول کیاجائے۔ سود خوروں کے گھر صاف رکھنے کےلئے اپنے گھر کو اس گندگی سے ملوث کرناکوئی دانشمندانہ بات نہیں۔قرآن وحدیث میں سود کے متعلق کسی قسم کا استثنا نہیں ہے۔اس کے متعلق خود استثنائی صورتیں پیدا کرلینا شریعت سازی ہے۔جس کے ہم مجاز نہیں ہیں۔سود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہماری ذمہ داری یہ بیان کی ہےکہ ہم اسے وصول ہی نہ کریں، حرام خوروں کے لئے یہ حرام چھوڑ دیا جائے۔ عذر ہائے لنگ اصل کٹوتی کے ساتھ سودی رقم لینے کے لئے کچھ مجبوریاں اور مصلحتیں بیان کی جاتی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ: ( ملازم کی مرضی کے بغیر ماہ بما ہ تنخواہ سے کٹوتی ہوتی رہی ،جب یہ کٹوتی شروع ہوئی تھی ،اس وقت روپے کی مالیت اور موجودہ مالیت میں بہت تفاوت ہے، لہذا اس نقصان کی تلافی کے لئے سودی رقم لینے میں کیا حرج ہے؟ ( ملازم کو جی پی فنڈ حاصل کرنے کےلئے دفتری عملے کوکچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔لہذا یہ سودی رقم لے کر دفتری عملے کو دے دی جائے تاکہ'' مال حرام بودجائے حرام رفت'' کا مصداق بن جائے۔ ( سودی رقم لے کر خوداستعمال نہ کرے بلکہ ثواب کی نیت کرے بغیر کسی لاچاری یا غیر مسلم کو دے دی جائے ،بصورت دیگر دفتری عملہ اس رقم کو ہڑپ کرجائے گا۔ ( سود وہ ہوتا ہے جو فریقین کی رضا مندی سے طےہو۔اس ’’سودی رقم‘‘ میں ملازم کی رضا مندی شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ارادہ اختیار کودخل ہے، لہذا اس رقم کو اپنے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ اسلامی نظام عدل کے منافی جودھاندلیاں ہم نے سینے سے لگار رکھی ہیں وہ''خود ساختہ بہانوں'' کے سہارے لگا رکھی ہیں۔ ورنہ در حقیقت وہ شرعی معذرتیں نہیں ہیں بلکہ عذر ہائے لنگ ہیں جسے ہم''خوئے بد رابہانہ بسیار'' سے تعبیر کر |