Maktaba Wahhabi

249 - 495
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جرم کو بایں الفاظ بیان فرمایا:'' کہ سود کے ستر حصے ہیں۔ ان میں سے کم تر حصہ اپنی حقیقی ماں سے جماع کرنا ہے۔''(ابن ماجہ) اگرچہ اس کی سند میں ابو معشر لجیح بن عبدالرحمٰن راوی ضعیف ہے۔تاہم دیگر شواہد کی وجہ سے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔''(صحیح ابن ماجہ :2/27) اب تک قابل غوربات یہ ہے کہ ملازم کو جوسودی رقم ملتی ہے اس کا مالک کون ہے، ملازم تو اس کا مالک نہیں کیونکہ یہ تو اسی رقم کامالک ہے جو ماہ بماہ ا س کی تنخواہ سے کٹوتی کی صورت میں جمع ہوتی رہی اور جو زائد رقم سود کی شکل میں ہے ملازم اس کا قطعاً مالک نہیں ہے۔اصل رقم کا متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر تم توبہ کرو توتمہارے لیے تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیاجائے۔''(2/البقرہ :279) سودی رقم کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود سے باقی رہ گیا ہے اگر تم مومن ہوتو اسے چھوڑ دو۔''(2/البقرہ 278) اگر اس رقم کی وصولی پر اصرار ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''پھر اگر تم اس پر عمل نہ کرو تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔''(2/البقرہ 279) ان قرآنی آیات اور احادیث کاخلاصہ یہ ہے۔ ( سود مطلق طور پر حرام ہے اس کے متعلق کوئی استثنائی صورت نہیں ہے۔ ( سود وصول کرنے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کرتا ہے۔ ( سود لینا اپنے ایمان کو خیر باد کہہ دینے کے مترادف ہے۔ ( سود خوری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت اور پھٹکار کی باعث ہے۔ ( سود کا ایک ایک روپیہ چھتیس چھتیس دفعہ زنا کے برابر ہے۔ ( سود کا استعمال گویا اپنی ماں سے زنا کرنا ہے۔ ( سود لینے سے اللہ کا عذاب قحط سالی میں آتا ہے۔ ایسے حالات میں کیا ایک غیرت مند صاحب ایمان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی اصل رقم کے ساتھ سودی رقم کو بھی وصول کرے گا اگرچہ ایسے موقع پرانسان کا امتحان ہوتا ہے کہ ایک طرف تھوڑی سی رقم اور دوسری طرف ڈھیروں مال ہے لیکن جس شخص کو اپنے ایمان کی فکر ہے وہ اس گندگی کے ڈھیر کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا ۔ارشا د باری تعالیٰ ہے: ''اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ دیجئے کہ پاک اور ناپاک یکساں نہیں ہیں ،خواہ ناپاک کی کثرت تمھیں کتنا ہی فریفتہ کرنے والی ہو۔''(5/المائدۃ :100) اس آیت پر غور کرنے سے قدروقیمت کا ایک دوسرا معیار سامنے آتا ہے جو ظاہر بین اور دنیا پرست انسان کے معیارسے
Flag Counter