اب ان حیلوں اور بہانوں کا جائز ہ لیتے ہیں جو جی پی فنڈ کی سودی رقم لینے کےلئے بطور سند پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہم قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ رزق حلال خیروبرکت سے معمور ہوتا ہے،جبکہ حرام مال کئی ایک مصیبتوں اور آفتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے،بعض اوقات حرام کی نحوست حلال مال کو بھی لے ڈوبتی ہے۔اگرچہ سودی رقم ہمارے پیش کردہ دس سالہ گوشوارہ کے مطابق اصل کٹوتی سے چار گناہ زائد ہے۔تاہم ایک بندہ مومن کےلئے اس سے کنارہ کش رہنے میں ہی عافیت ہے۔رزق حلال کی برکت اور مال حرام کی نحوست کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بکری جو حلال جانور ہے۔اور سال میں ایک یا دو دفعہ بچے جنم دیتی ہے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں روزانہ ان کو ذبح کیاجاتاہے،اس کے باوجود باہر میدانوں میں ان کے ریوڑچرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں کتیا چھ ماہ بعد کئی بچے جنم دیتی ہے۔اورحرام ہونے کی وجہ سے کوئی ذبح بھی نہیں کرتا لیکن کتوں کے کبھی میدانی علاقوں میں ریوڑ نظر نہیں آتے۔اب حیلوں کے متعلق گزارشات پیش خدمت ہیں: ( نقد کی مالیت کا اتار چڑھاؤ ہر دور میں رہا ہے لیکن یہ مادہ پرستانہ ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ اسے بنیاد بناکرسود کو جائز قرار دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے چچا عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ کاسود ختم کیاتھا تو کیا آپ نے اس کی مالیت کے نشیب وفراز کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی تلافی کی تھی؟پھر کیا مالیت کے فرق سے سودی رقم کی اصل کٹوتی سے چارگنا زیادہ ہوسکتی ہے؟ ( جب یہ ثابت شدہ حقیقت ہےکہ سودی رقم ملازم کی نہیں بلکہ اس کی رقم صرف اصل کٹوتی ہے تو پھر کیادفتری عملے کو رشوت دینے کےلئے دوسروں کی دولت پر شبخون مارنا کہاں کی عقلمندی ہے۔اگراپنی رقم کے لینے کےلئے رشوت دینا ضروری ہو تو اس کا کوئی اور حل سوچیں نہ کہ اس مال سے دیں جو آپ کا نہیں ہے۔ ( ہمارے نزدیک یہ سودی رقم وصول کرنا ہی جرم ہے کیوں کہ صریح نص قرآن کے خلاف ہے۔قرآن کی خلاف ورزی کرکے اسے وصول کرنا پھر ثواب کی نیت کے بغیر کسی کو دینا اسے '' ظلمات بعضها فوق بعض''سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ( جب ملازم جی پی فنڈ کا فارم پرکرتاہے تو خانہ نمبر 14 میں اپنی رضامندی کا اظہار نہیں کرتا تو بھی اس رقم کے سود ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔بہرحال اصل کٹوتی کے علاوہ دوسری رقم ہے تو سود، جسے کسی صورت میں لینا جائز نہیں ہے۔باقی رہی یہ بات کہ وہ رقم جو ملازم کے کھاتے میں پڑی ہے۔اس کا مصرف کیا ہو؟ اس کی ذمہ داری ملازم پرنہیں ہے کہ وہ اس کے متعلق درد سر اپنے ذمہ لےوہ خود بخود جہاں سے آئی تھی وہاں پہنچ جائے گی۔آخر بینک میں سروس چارجز ایک کھاتہ ہوتا ہے، اس کھاتہ میں جمع شدہ رقم تحلیل ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے۔ پس چہ باید کرو؟ہمیں مختلف احباب کی طرف سے زمینی حقائق پر نظر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔اگر اس سے مراد باطل سے سمجھوتہ کرناہے توایسا کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک اس کا حل یہ محکمہ جب اپنے ملازم کا جی پی فنڈ کاکھاتہ بناتا ہے تو اسے ایک فارم مہیا کیا جاتاہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ کٹوتی کی جمع شدہ رقم پر سود لیناچاہتا ہے یانہیں؟اگر ملازم لکھوادے کہ میں سود نہیں لیناچاہتا تو اس کی جمع شدہ رقم پر سود نہیں لگایا جاتا۔ اگر اس کے باوجوداس کی کٹوتی میں سود شامل کردیا گیا ہے تو ایک سادہ کاغذ پر درخواست دے کر اپنی جمع شدہ رقم پر سودی اضافہ ختم کرایا جاسکتا ہے۔ہماری معلومات کے مطابق بعض احباب نےایساکیاہے اور انھیں صرف اصل کٹوتی کی رقم ہی ملی ہے۔فارم کاعکس حسب ذیل ہے: |