اگر سروس تین سال یا عمر55 سال ہے تو یہ فنڈ ناقابل واپسی، بصورت دیگر اسے چھتیس اقساط میں ماہ بما ہ اپنی تنخواہ سے محکمہ کو واپس کرنا ہوگا۔اصل کٹوتی بدستور جاری رہے گی۔ ( اس فنڈ کا ملازم کی پنشن یا گریجویٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملازم کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی پنشن کا 40٪ یکمشت وصول کرلےجسے گریجویٹی کہا جاتا ہے۔ اور باقی 60 ٪ ماہ بماہ وصول کرتا رہے۔ یا یکمشت لینے کی بجائے وہ ماہ بماہ وصول کرے۔اس صورت میں پنش کی مقدارزیادہ ہوگی۔ ( اس کٹوتی پر ملنے والے سود کی شرح متعین نہیں ہوتی بلکہ 15 فیصد سے 20 فیصد کے درمیان رہتی ہے، البتہ جتنا سود ہوتا ہے اس پر مزید حکومت 30 فیصد کے حساب سے بونس جمع کرتی ہے، آیندہ سال کٹوتی +سود+بونس کی مجموعی رقم پر سو د لگایا جاتا ہے۔یعنی یہ سود مرکب کی ایک صورت ہے۔ ( چند سالوں بعد اس کٹوتی کی رقم میں حیران کن اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ اضافہ ایسی برق رفتاری سے ہوتا ہے کہ اصل کٹوتی سے سود کہیں زیادہ ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ دس سال کی کٹوتی ۔/6000 روپے ہے جبکہ جی پی فنڈ دس سال میں 264186 روپے ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل کٹوتی میں 204186 روپے سود کے ہیں۔دیکھیں آپ کہ سود کس رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ یہ تو دس سالہ سروس کے اعدادوشمار ہیں بعض اوقا ت ملازمین کی سروس بیس اور پچیس سال بھی ہوجاتی ہے۔کچھ ملازمین یہ کہتے ہیں کہ سود کے علاوہ حکومت کچھ اس میں اپنی طرف سے رقم شامل کرتی ہے۔حالانکہ یہ مفروضہ صحیح نہیں ہے۔بلکہ یہ سود مرکب کاکرشمہ ہے۔ ( ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس اس بات کا پابند ہے کہ وہ سال کے اختتام پر ملازم کو ایک سلپ جاری کرے جس میں اصل کٹوتی سود اور بونس کی وضاحت ہو لیکن وہ ہجوم مشاغل کا بہانہ بنا کر ایسا نہیں کرتا اگر ملازم ہر سال یا فراغت کے وقت کےلئے درخواست دے تو محکمہ کی طرف سے یہ اعدادوشمار فراہم کردیئے جاتے ہیں۔ ( اس جمع شدہ فنڈ پر ہرسال زکوۃ بھی کاٹی جاتی ہے۔لیکن اس زکوۃ کی شرعی حیثیت انتہائی مخدوش ہے۔بینک کے سیونگ اکاؤنٹس میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ لہذا بینک میں جمع شدہ رقم کی از خود زکوۃ دینا چاہیے۔جی پی فنڈ کے متعلق یہ وہ تفصیلات تھیں جو ہم |