Maktaba Wahhabi

245 - 495
وار د ہیں۔ مختلف مماک کی کرنسی مختلف اجناس شمار ہوتی ہے ۔ان میں کمی وبیشی تو جائز ہے لہذا ایک ریال کاتبادلہ پانچ دس اور پندرہ روپوں سےکرناجائز ہے لیکن اس میں ادھار جائز نہیں۔یہ تبادلہ نقد بنقد ہونا چاہیے۔اس لئے کرنسی کا کاروبار جائز ہے اور اس میں کمی بیشی کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔البتہ اس میں ادھار درست نہیں ہے بلکہ نقد بنقد ہونا چاہیے۔ یہاں ایک اورسوال پیدا ہوتا ہےکہ بعض اوقات حکومت مختلف کرنسیوں کی قیمت مقرر کردیتی ہے۔ مثلا حکومت پاکستان ریال کی قیمت 16 روپے اور ڈالر کی قیمت 60 ر وپے مقرر کردے تو کیا اس صورت میں حکومت کی مقرر کردہ قیمت کی مخالفت کرکے کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ جائز ہے یا نہیں یعنی اوپن مارکیٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہماری ناقص رائے کے مطابق حکومت کے مقرر ریٹ کی مخالفت کرتے ہوئے کمی وبیشی کے ساتھ تبادلہ کرنے میں سود لازم نہیں آتا کیوں کہ دونوں کرنسیاں جنس کےلحاظ سے مختلف ہیں اور مختلف اجناس کا کمی وبیشی کے ساتھ تبادلہ جائز ہے اور اس کمی وبیشی کی شرعاً کوئی حد نہیں ہے بلکہ یہ فریقین کی باہمی رضا مندی پر موقوف ہے اور حکومت کی اجازت سے اوپن مارکیٹ میں کاروبار ہوتا ہے تاکہ حکومت کے ہاں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو۔(واللہ اعلم) سوال کا دوسرا جز شیئرز سے متعلق ہے۔ شیئرز کی حقیقت یہ ہے کہ ایک کمپنی اپنا کاروبار چلانے کے لئے اپنا لائحہ عمل اور خاکہ شائع کرتی ہے اور اپنے شیئرز جاری کرتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کمپنی کے لوگوں کو اپنے کاروبار میں حصے دار بننے کی دعوت دیتی ہے۔اس وقت کمپنی سے جو شخص بھی شیئرز خریدتا ہے۔وہ شخص در حقیقت اس کمپنی کے کاروبار میں حصہ دار بن رہا ہوتا ہے اور کمپنی کے ساتھ شراکت کا معاملہ کرتاہے۔اگرچہ عرف عام میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے شیئرز خریدے لیکن شرعی لحاظ سے یہ خریدوفروخت نہیں کیوں کہ پیسے ادا کرنے سے اسے کوئی سامان وغیرہ نہیں ملتا، ابتدائی طور پر شیئرز خریدنے کے لئے یہ شرط ہے کہ خریدنے والا اس با ت کا پتہ لگائے کہ یہ کمپنی کوئی حرام کاروبار توشروع نہیں کررہی مثلا: شراب کشید کرنے کی فیکٹری لگائی جارہی ہو یا سودی کاروبار کے لئے کوئی بینک کھولا جارہا ہو تو ابتدا اس کمپنی کے حصص خریدنا جائز نہیں ہیں۔لیکن اگر بنیادی طور پر حرام کاروبار نہیں بلکہ کسی جائز کاروبار کے لئے کسی کمپنی نے شیئرز جاری کیے ہیں۔ مثلاً: ٹیکسٹائل مل لگانا ہے تو اس صورت میں اس کمپنی کے شیئرز خریدنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اب ان شیئرز کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ جب ایک آدمی نے کمپنی کے جاری کردہ حصص خرید لئے۔ اور وہ اب کمپنی میں حصہ دار بن گیا تو پھر یہ شیئرز ہولڈر وقتاً فوقتاً اپنے شیئرز اسٹاک مارکیٹ میں فروخت کے لئے پیش کردیتا ہے اس اسٹاک مارکیٹ سے شیئرز خریدنے کے لئے بھی چند ایک شرائط ہیں: 1۔یہ شیئرز کسی حرام کاروبار میں ملوث کمپنی کے نہ ہوں، ایسی کمپنی کے حصص خریدنا کسی حال میں جائز نہیں نہ ابتدائی طور پر جاری ہونے کے وقت اور نہ ہی بعد اسٹاک مارکیٹ سے ان کاخریدنا جائز ہے۔ 2۔دوسری شرط یہ ہے کہ اس کمپنی کے تمام اثاثے نقد رقم کی شکل میں نہ ہوں بلکہ اس کمپنی نے جمع شدہ سرمایہ سے زمین خریدی ہو یا بلڈنگ بنالی ہو، اگر اس کمپنی کا اثاثہ ا بھی نقدی کی شکل میں ہے تو ان حصص کو کمی وبیشی کے ساتھ فروخت کرناجائز نہیں بلکہ اس کی
Flag Counter