لین دین باہمی رضا مندی سے ہوتاہےلیکن ا س کی بنیاد''اكل المال بالباطل'' پر ہے۔ چونکہ یہ ایک کاروبار ہے اور کاروبار میں جب کرنسی کا تبادلہ ہوتا ہے تو مساویانہ طور پر ہوناچاہیے ،کمی وبیشی کے ساتھ ایک ہی جنس کاتبادلہ شرعاً حرام ہے جس کی حرمت صریح اور واضح نصوص سے ثابت ہے،لہذا اس قسم کے کاروبار سے اجتناب کرنا چاہیے، در اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مصداق حقیقت کاروپ دھارکر ہمارے سامنے آرہا ہے۔حدیث میں ہے کہ ''میری امت پر ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے درمیان حلال وحرام کی تمیز اٹھ جائے گی۔انسان بڑی لا پروائی اور ڈھٹائی کے ساتھ حرام مال کھانے کی جرأت کرے گا۔''(صحیح بخاری : کتاب البیوع) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:'' کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ سود خواری میں مبتلا ہوں گے۔''عرض کیا گیا کہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛''جو بچنے کی کوشش کریں گے انھیں بھی سود کی گردوغبار اوردھواں پہنچے گا۔''(مسند امام احمد) اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ۔آمین سوال۔لاہورسےمحمدعمر فاروق لکھتے ہیں ایک آدمی کرنسی کی خریدوفروخت کرتا ہے کیا یہ کاروبار جائز ہے، نیز شیئرز کی خریدوفروخت اور اس کا نفع لیناجائز ہے مثلا ً ایک فیکٹری ایک کروڑ روپے کی ہے اس کے پچاس شیئرز مالک اپنے پاس رکھتا ہے اور باقی پچاس لوگوں میں فروخت کردیتا ہے ،یہ حصص خریدنے والے بھی کاروبار میں شریک ہوجاتے ہیں ،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب۔کرنسی کے کاروبار کی دو صورتیں ہیں: 1۔ایک ہی ملک کے مختلف مقدار کے نوٹوں کا آپس میں تبادلہ کرنا۔ 2۔ایک ملک کے کرنسی نوٹوں کا دوسرے ملک کے کرنسی نوٹوں سے تبادلہ کرنا۔ ویسے تو ان کاغذی نوٹوں کی اپنی ذاتی کوئی قیمت نہیں ہے صرف کاغذ کایک ٹکڑاہے، البتہ حکومت وقت کے اعلان کے بعد یہ ثمن بن گئے ہیں۔اگرچہ یہ عرفی ثمن کے حامل ہیں تاہم ان کے ذریعے کاروبار کرنا قانونی حیثیت اختیار کرگیا ہے اب اگر ایک ملک کے نوٹوں کا باہمی تبادلہ کرنا ہوتواس کی دو شرطیں ہیں۔ 1۔مجلس عقد میں فریقین نقد بنقد تبادلہ کریں۔ 2۔اس تبادلے میں برابری کو ملحوظ رکھاجائے۔ اگر کوئی 100 روپے کے نئے نوٹ 105 روپے میں فروخت کرتا ہے توشرعاً درست نہیں بلکہ ایسا کرنا صریح سود ہے ۔یہ بھی واضح رہے کہ یہ برابری کرنسی نوٹوں کی تعداد اور گنتی کے لحاظ سے نہیں ہوگی بلکہ ان نوٹوں کی ظاہری قیمت کا لحاظ رکھاجائے گا، لہذا سو روپے کے ایک نوٹ کا تبادلہ دس دس ر وپے کے دس نوٹوں سے جائز ہے۔ اس تبادلہ میں اگرچہ ایک طرف ایک نوٹ ہے اور دوسری طرف دس نوٹ ہیں۔ لیکن ظاہری قیمت کے لحاظ سے ان دس نوٹوں کے مجموعہ کی قیمت سو روپے کے ایک نوٹ کے برابر ہے۔ اس عقد میں بذات خود دو نوٹ یا ان کی تعداد مقصود نہیں بلکہ ان کی ظاہری قیمت مقصود ہے جو ان پر لکھی جاتی ہے اور جس کی یہ نوٹ نمائندگی کرتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ ایک ملک میں رائج نوٹوں کے تبادلہ میں کمی وبیشی جائز نہیں ہے کیوں کہ ایک ملک کے مختلف کرنسی نوٹ ایک ہی جنس شمار ہوتی ہے اور ایک ہی جنس کے باہمی تبادلہ میں ادھار اور کمی بیشی منع ہے جیسا کہ اس کے متعلق متعدد احادیث |