پاس نہیں ہے۔''(ابوداؤد :کتاب البیوع) لہذا پچیس ہزار روپے نفع سے دوسرے کے حق میں دستبردار ہونا جائز نہیں ہے بلکہ اسے چاہیے کہ نقد بنقد سودا کرکے اسے اپنے قبضے میں کرے پھر وہ آگے فروخت کرے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔منڈی راجو وال سے حاجی عارف اور عزیز احمد لکھتے ہیں کہ کسی نے ایک سو من گندم بحساب۔/360 روپے فی من فروخت کی ہے اور طے پایا ہے کہ اس کی قیمت دو ماہ بعد وصول کی جائے گی جبکہ مارکیٹ کا موجود ریٹ۔/335 روپے فی من ہے کیا ایسا کرنا درست ہے، نیز ایک آدمی ایک سومن گندم کابھاؤ طے کئے بغیر فروخت کرتا ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ د و ماہ بعد جو مارکیٹ کاریٹ ہوگااس کے مطابق قیمت وصول کرے گا۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب۔پہلی صورت جائز ہے کیوں کہ نقد اورادھار کےبھاؤ میں فرق کرنا شرعاً جائز ہے ،اس کے لئے دو شرطیں ہیں: 1۔پہلے دن بھاؤ طے ہوجانا چاہیے۔ 2۔اگر وقت مقررہ پر قیمت ادا نہ کرسکے تو اسے مزید مہلت کی وجہ سے بھاؤ میں اضافہ کرنے کی اجازت نہیں ہے ،جبکہ بیع کی دوسری صورت ناجائز ہے کیوں کہ اس میں بھاؤ طے نہیں ہوا۔خریدوفروخت کرتے وقت قیمت کا طے ہونا ضروری ہے، قیمت کا مجہول ہونا آیندہ کسی لڑائی جھگڑا کا باعث ہوسکتا ہے۔لہذا شرعاً ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔منکیرہ سے پروفیسر مجتبیٰ سعیدی لکھتے ہیں کہ چند آدمی مل کر کمیٹی ڈالتے ہیں پھر ایک مقررہ تاریخ پراس جمع شدہ رقم کی بولی لگائی جاتی ہے۔جو ممبر سب سے کم بولی لگائے اسے جمع شدہ کمیٹی کی رقم دے دی جاتی ہے۔باقی ماندہ رقم تمام ممبران آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں اس بولی والی کمیٹی کا شرعاً کیا حکم ہے؟ جواب۔کمیٹی سسٹم کی بعض صورتیں امداد باہمی کاذریعہ ہیں مثلاً :چند احباب مل کر اپنی اپنی تھوڑی تھوڑی پس انداز رقم کو ماہ بماہ کسی کے پاس جمع کرتے رہتے ہیں۔ پھر ہر مہینے پہلے سے طے شدہ پروگرام یاقرعہ اندازی کے ذریعے تمام جمع شدہ ممبران میں سے کوئی ایک لے لیتا ہے۔جسے رقم مل جاتی ہے اس کا نام آیندہ طے شدہ پروگرام یا قرعہ اندازی میں شامل نہیں کیا جاتا ،البتہ اپنی پس انداز رقم ہر ماہ ادا کرتا رہتاہے۔ اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔کیوں کہ یہ ایک کاروبار ہے۔امدادباہمی کاذریعہ نہیں ہے۔ اور اس کاروبار کی بنیاد ناجائز ذرائع سے مال کھانے پر ہے جس کی حرمت اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان فرمائی ہے:'' اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال باہمی رضا مندانہ تجارت کی راہ سے حاصل ہوجائے۔''(4/النساء :29) باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جو خلاف حق ہوں اور شرعاً واخلاقاً ناجائز ہوں، آپس کی رضامندی سے مراد حقیقی باہمی رضا مندی ہے اور یہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جس میں ناجائز دباؤ اور فریب و دغا نہ ہو، رشوت اور سودمیں بظاہر رضا مندی ہوتی ہے لیکن یہ رضا مندی مجبورانہ ہے اور دباؤ کا نتیجہ ہوتی ہے۔صورت مسئولہ اس لئے ناجائز ہے کہ نقد تھوڑی رقم وصول کرکے آیندہ زیادہ رقم ادا کرنا ہے، سود بھی یہی ہے کہ آدمی تھوڑی ر قم نقد وصول کرکے آیندہ معین مدت پرزیادہ رقم ادا کرتا ہے، اگرچہ یہ |