کرلیتے ہیں،اورریٹ بھی طے ہوجاتا ہے۔اس مال کی فراہمی میں نقد ادائیگی پر ریٹ علیحدہ اور ادھار پر علیحدہ ہوتا ہے۔اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب۔شرعی اصطلاح میں اسے بیع سلم کہاجاتا ہے، اس میں رقم پیشگی ادا کی جاتی ہے جبکہ مال بعد میں فراہم کرناہوتا ہے۔اس میں بھاؤ، وقت فراہمی، جنس ،وصف اور پیمائش وغیرہ پہلے سے طے کرنا ہوگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کہ جو شخص کسی چیز کے متعلق بیع سلم یاسلف کرتا ہے اسے چاہیے کہ متعلقہ چیز کی پیمائش یا وزن اوروقت ادائیگی طےکرے۔''(صحیح بخاری :سلم 2240) اگر مدت میں مال مہیا نہ کیاجائے تو تاجروں کے عرف میں اسے جرمانہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن ریٹ وغیرہ میں کمی کرنے کا دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔اس میں رقم پیشگی ہی ادا کرنی پڑتی ہے۔ بصورت دیگر طرفین سے ادھار سے ہوگا جو شرعا ً درست نہیں ہے۔ سوال۔ایک اور صورت جو بازار میں رائج ہےکہ ایک آدمی ایک ماہ کے ادھار پر مال لیتا ہے، پھرمعینہ مدت تک ادائیگی نہیں کرسکتا توفروخت کارتقاضا کرتا ہے کہ جتنی رقم اس کے ذمے بنتی ہے نئی متوقع مدت کے مطابق اتنی رقم کے مال کا نیابل بنوالے ، پھر یہ بل زائد رقم کا بنایا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں نہ خریدار کوئی مال لیتا ہے اور نہ ہی فروخت کار کوئی مال دیتا ہے۔جتنی مدت خریدار بڑھا لے اتنانفع فروخت کار بڑھا لیتا ہے،اس کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے؟ جواب۔اگر مجلس عقد میں پہلے سے بھاؤ اور ادائے قیمت کی میعاد طے کرلی گئی تھی تو پھر اگر خریدار بروقت رقم مہیا نہ کرسکے تو از سر نو اضافہ کے ساتھ قیمت کا تعین کرنا جائز نہیں۔جیسا کہ صورت مسئولہ میں وضاحت کی گئی ہے۔اگر ایسا کیاگیا تو یہ واضح طور پر سود ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔ فروخت کار کو ایسے موقع پر رواداری سے کام لینا چاہیے کہ ادائیگی کی مدت قیمت میں اضافہ کے بغیر بڑھادی جائے، حدیث میں اس طرح کے تنگ دست کے ساتھ نرمی اور مزید مہلت دینے پر بہت فضیلت آئی ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو صرف اس لئے معاف کردیاتھا کہ وہ مفلوک الحال اور تنگ لوگوں کو مزید مہلت دیاکرتا تھا؟اگر خریدار رقم دیر سے ادا کرنے کا عادی مجرم ہے تو اس کے سد باب کے لئے جرمانہ وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔لیکن از سر نو سابقہ رقم کوبڑھا کر نیابل بنانا شرعاً حرام ہے ۔ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ایک آدمی کسی دوسرے کو دو لاکھ پاکستانی روپے دے کر پانچ ہزار ڈالر کا سودا کرلیتا ہے ،باقی رقم کی ا دائیگی کے لئے آٹھ دن کی مہلت طلب کرتا ہے۔اب چار دن بعد اس کے پاس ایک آدمی آتا ہے اور پیش کش کرتا ہے کہ تم اپنا بیعانہ مجھ سے لے لو اور مزید پچیس ہزار روپے نفع بھی لے لو اور مذکورہ سود ے سے دستبردار ہوجاؤ ،کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ جواب۔ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کہ کیوں کہ: 1۔کرنسی کے کاروبار میں تبادلہ نقد بنقد ہونا چاہیے۔جبکہ مذکورہ صورت میں ایسا نہیں ہے بلکہ اس نے بقایا رقم ادا کرکے پھر ڈالر لینے ہیں۔یہ قرض کی قرض کے ساتھ خریدوفروخت ہے جو شرعاً جائز نہیں ہے۔ 2۔یہ کاروبار اس لئے ناجائز ہے کہ ابھی مال اس کے ہاتھ میں نہیں آیا۔یعنی اس نے اس پر قبضہ نہیں کیا اور اسے آگے فروخت کردیا ہے۔جس مال پر انسان کا قبضہ نہ ہو اسے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔حدیث میں ہے:'' اس چیز کو مت فروخت کرو جوتیرے |