کوئی حرج نہیں۔ کیوں کہ ایک معاملہ طے ہوگیا ۔''(جامع ترمذی :کتاب البیوع) نقد اور ادها ر قیمت میں فرق کرنے کے متعلق ہمارا مفصل فتویٰ اہلحدیث مجریہ 7جون 2002ء شمارہ 22 میں شائع ہوچکا ہے۔ نوٹ: ہمارے ہاں بعض علماء ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافے کو ناجائز کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قیمت میں یہ اضافہ مدت کے عوض میں ہے۔ اور جو اضافہ مدت کے عوض میں ہو وہ سود ہے جسے شریعت نے حرام کیاہے۔ لیکن یہ اضافہ مدت کا عوض نہیں بلکہ مدت کی وجہ سے ہوتاہے۔کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتاکہ اس ادھا ر کی قیمت میں کچھ قیمت تو بیع کی ہو اور کچھ قیمت اس مد ت کی ہو جوعاقدین نے قیمت کی ادائیگی کے لئے طے کی ہے۔بلکہ بعض مخصوص معاشرتی حالات کے پیش نظر ادھار میں جوسہولت میسرآتی ہے،اس کی وجہ سے کچھ اضافہ ہوا ہے۔آسانی کے پیش نظر یوں بھی تعبیرکیاجاسکتا ہےکہ یہاں پر قیمت میں اضافہ ادھار کی وجہ سے ہے، ادھار کے عوض میں نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے ہمارے فتوے کا مطالعہ کیجئے جس کا اوپر حوالہ دیاگیا ہے۔ سوال۔اب خریداری کی وضاحت پیش خدمت ہےکہ بعض اوقات ہمارے پاس بیو پاری آتے ہیں ان کے پاس مال کے نمونےہوتے ہیں۔فریقین باہمی رضا مندی سے ریٹ طے کرلیتے ہیں۔ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ سودا مہنگا ہے۔ کیوں کہ ادھارلےرہے ہیں لیکن باہمی رضا مندی سے یہ طے کرلیاجاتاہےکہ ہفتہ وار کل رقم کا 4/ ایا8/1 ادا ہوگا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب۔اس معاملہ کی دو صورتیں ممکن ہیں:پہلی یہ کہ جب سودا ہورہا تھا فروخت کار کے پاس مال موجود تھا اگرچہ اس کے سٹور میں ہو۔وہ معاملہ طے ہونے کے بعد مال مہیا کردیتاہے۔اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ معاملہ طے کرتے وقت اس کے پاس صرف نمونہ ہی تھا اس کے پاس مال موجودنہ تھا اس نے آگے کسی سے خرید کریا خود تیار کرکے مال مہیا کرنا ہے۔یہ صور ت ناجائز ہے۔کیوں کہ کسی کو ایسی چیز فروخت کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے جو سودا طے کرتے وقت اس کی ملکیت نہ ہو یا وہ اس وقت مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کہ ایسی چیز مت فروخت کرو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔'' یہ حکم امتناعی اس وقت جاری فرمایا جب حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک آدمی آتا ہے اور و ہ مجھ سے ایسی چیز طلب کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ،میں سودا طے کرنے کے بعد بازار سے خریدکر اسے مہیا کرتا ہوں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔(ابوداؤد، البیوع 3503) سوال۔بعض اوقات ہم پورا مال نقد ریٹ پر خریدلیتے ہیں لیکن ادھار خریدنے کے لئے یہ ہوتا ہے کہ اگر پندرہ دن کا ادھار ہے تو پچاس پیسے اور اگر ایک ماہ کاادھار ہے تو ایک روپیہ فی میٹر ریٹ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید مدت بڑھ جائے تو ریٹ بھی بڑھتا جائے گا۔ جواب۔اس کی پہلے وضاحت ہوچکی ہے کہ نقد اورادھار ریٹ میں فرق کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ ایک بھاؤ طے کرلیا جائے۔طے ہوجانے کےبعد مدت کے بڑھنے سے ریٹ کا بڑھانا صریح سود ہے۔معاملہ کرتے وقت جوریٹ طے ہوا ہے اس کے مطابق ادائیگی ہونی چاہیے۔ سوال۔کوئی کپڑ ابازار میں موجود نہیں ہم کسی کارخانے کو اس کا نمونہ دے دیتے ہیں۔ اور اس سے مال فراہم کرنے کی مدت طے |