Maktaba Wahhabi

240 - 495
قیمت لگائے یہی وجہ ہے کہ کسی چیز کا بھاؤ متعین کردینا شرعاً جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے فروخت کار کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اہل مدینہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اشیاء کا بھاؤ متعین کردیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کہ اللہ تعالیٰ ہی ان اشیاء کا خالق اور ان کے اتار چڑھاؤ کا مالک ہے،نیز وہ تمام مخلوق کا رازق بھی ہے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میرے ذمے کسی کا کوئی حق ہو۔''(مسند امام احمد :3/156) اس حدیث کے پیش نظر اشیاء کی قیمتیں توقیفی نہیں کہ ان میں کمی بیشی نہ ہوسکتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ریٹ طے کرنے کا اختیار فروخت کار کو دیا ہے۔چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ ذکر کیا ہے۔''چیز کا مالک بھاؤ لگانے کا زیادہ حق دار ہے۔''پھر آپ نے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار کو کہا تھا کہ اس احاطہ کابھاؤ لگاؤ جس میں کھنڈرات اور کھجوریں وغیرہ تھیں۔ اور آپ مسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے۔(صحیح بخاری البیوع 2106) پھر نقد اور ادھا ر کی قیمت کی مالیت میں نمایاں فرق ہے۔ شریعت نے اس فرق کو برقراررکھا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا:'' کہ وہ ایک لشکر ترتیب دیں اور اس کے لئے لوگوں سے حاضر اونٹ اس شرط پر خرید لیں کہ جب زکوۃ کے اونٹ آئیں گے توایک اونٹ کے عوض دو اونٹ دیئے جائیں گے۔''(مستدرک حاکم البیوع 2340) لہذا فروخت کار کا حق ہےکہ ادھا رلے جانے والے سے اگر چاہے تو عام گاہک سے اپنے مال کی زیادہ قیمت وصول کرے، اس میں بظاہر شرعا کوئی قباحت نہیں ہے۔ سوال۔ایک صورت بازار میں یہ بھی رائج ہےکہ اگر نقد ادائیگی ہوگی تو ریٹ یہ ہوگا اگر ادھار لوگے تواتنے دام زیادہ ہوں گے۔کیا نقدادھار کی قیمت میں فرق کرنا شرعاً جائز ہے؟ جواب۔شرعی لحاظ سے نقداور ادھار کی صورت میں کسی چیز کی قیمت کو کم وبیش کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ مجلس عقد میں چیز کی مقدار اور ادائے قیمت کی میعاد مقرر کرلی جائے۔اگرچہ ادھار دینے کی صورت میں مختلف مدتوں کے مقابلے میں مختلف قیمتیں مقرر کرلی جائیں لیکن عاقدین کے درمیان عقد بیع کے وقت مختلف مدتوں اور قیمتوں کے درمیان کسی ایک مدت او ر قیمت کا تعین ہوناضروری ہے۔علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ اربعہ اور جمہور فقہا اور محدثین کا مسلک بایں الفاظ بیان کیا ہے:'' کہ خریدوفروخت کے عمومی دلائل کے پیش نظر ادھار بیع میں نقد کی نسبت قیمت زیادہ وصول کرنا جائز ہے۔بشرطیکہ خریدار اور فروخت کار ادھار یا نقد کا قطعی فیصلہ کرکے کسی ایک قیمت پر متفق ہوجائیں۔''(نیل الاوطار :5/172) اس بنا پر اگرکہے کہ میں یہ چیز نقد اتنے میں اورادھاراتنے میں فروخت کرتاہوں ،اس کے بعد کسی ایک بھاؤ پر ا تفاق کیے بغیر دونوں جداہوجائیں تو جہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہوگی۔لیکن اگرعاقدین مجلس عقد میں ہی کسی ایک شق اور کسی ایک ثمن پر ا تفاق کرلیں تو بیع جائز ہوگی ۔چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ''بعض اہل علم نے حدیث (( بيعتين في بيعۃ )) کی تشریح بایں الفاظ کی ہے کہ فروختکار خریدار سے کہے کہ میں یہ کپڑا تمھیں نقد دس اور ادھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں،پھر اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پراتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تو اس میں
Flag Counter