Maktaba Wahhabi

239 - 495
8۔تجارتی لین دین میں حق رجوع برقرار رکھاگیا ہو۔ اگر مذکورہ بالاشرائط کسی خریدوفروخت میں پائی جاتی ہیں تو وہ جائز اور حلال ہے۔لیکن اسلام میں کوئی شرح منافع مقرر نہیں ہے، البتہ کسی کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ ایک دوسرے کے لئے ہمدردی اور ایثار کے جذبات ہونے چاہئیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 100 ٪ نفع کمایا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اسے برقرار رکھا بلکہ ان کے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائی۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ رضی اللہ عنہ کو ایک دینار دیا تاکہ وہ آپ کے لئے ایک بکری خرید کرلائے۔اس نے منڈی سے ایک دینار کی دو بکریاں خریدیں ،پھران میں سے ایک کو ایک دینار کے عوض فروخت کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نفع کا ایک دینار اور خرید کردہ بکری پیش کردی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائی۔اس دعا کا یہ اثر تھا کہ اگر وہ مٹی بھی خرید لیتے تو اس سے نفع کماتے۔(صحیح بخاری :مناقب 3642) اسی طرح حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینار دیا تاکہ وہ اس سے قربانی کا جانور خرید لائے، انہوں نے ایک بکری ایک دینار کے عوض خریدی، راستے میں انھیں ایک گاہک ملا، اسے وہ دودینار کے عوض فروخت کردی۔وہ دوبارہ منڈی گئے ،وہاں سے ایک دینار کے عوض ایک اور بکری خریدی اور حاصل کردہ نفع اور خرید کردہ بکری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کردی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کردہ نفع ایک دینار بھی صدقہ کردینے کاحکم فرمایا۔(ابو داؤد، البیوع 3386) ان روایات سے معلوم ہواکہ شرح منافع کاشریعت نے کوئی تعین نہیں کیا ہے۔فریقین باہمی رضا مندی سے خریدوفروخت کرنے کے مجاز ہیں۔ سوال۔بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہگ آیا اس نے ہم سے ریٹ پوچھا، طے کرکے ہم سے سودا لیا ،ہمیں سودے بازی کرتے وقت یہ پتہ نہیں ہوتا کہ گاہگ ادھا ر سودالے گا یانقد؟وہ کبھی نقد رقم دے جاتا ہے اور کبھی ادھا ر پر مال لے جاتاہے، کیا اس طرح سوداکرنے میں کوئی قباحت ہے؟ جواب۔اس سودے بازی میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد قیمت ادا کرکے چیزیں بھی خریدی ہیں اورادھار پر بھی اشیائے صرف لی ہیں۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک اونٹ خریدا اور اس کی قیمت نقداداکردی۔(صحیح بخاری :البیوع 2718) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار رقم کی ادائیگی پر کچھ جو خریدے اور بطور اعتماد اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھ دی۔(صحیح البخاری :الاستقراض 2386) اس لئے نقد و ادھار خرید وفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سوال۔ہم سے گاہک نے مال دیکھا اور ریٹ طے کیا، ہمیں پتہ ہے کہ یہ گاہک ادھار رقم کی ادائیگی پر مال خریدے گا، اس بنا پر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ادھار لینے والے گاہک سے عام گاہک کی نسبت زیادہ نفع کمایا جائے کیا ایسا کرناشرعاً جائز ہے؟' جواب۔ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔کیوں کہ فروخت کار کو شریعت نے یہ اختیار دیا ہے کہ اپنی چیز کی جو چاہے
Flag Counter