نئے نوٹوں کے ہار بنا کر زیادہ قیمت سے فروخت کرنا بھی شرعاً جائز نہیں ہے۔ جب یہ کاروبار ہی جائز نہیں تو ا س کا حق محنت کے ناجائز ہونے میں کیا شک ہوگا۔اس میں مندرجہ ذیل قباحتیں پائی جاتی ہیں۔ 1۔جب ۔/500 رو پے کا ہار۔/550 روپے میں خریدا جاتا ہے تو زائد پچاس روپے حق محنت نہیں بلکہ سود کو جائز قرار دینے کا ایک چور دروازہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس ہار کو واپس کیا جاتا ہے تو اسے قیمت فروخت سےکم قیمت پر خریدا جاتا ہے۔اسے واپس کرنے پر محنت کامعاوضہ ختم کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ حق محنت کو بطور بہانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل اعتبار ان پچاس روپے کا ہے جو اس تبادلے میں بطور سود لیے گئے ہیں۔ 2۔دین اسلام میں ضروریات زندگی کے لئے دولت خرچ کرناجائز اور مباح ہے۔ لیکن فضولیات زندگی پر سرمایہ برباد کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔(صحیح بخاری) نوٹوں کے ہار پہننا انسانی ضرورت نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہےکہ دولت کی نمائش اور اس پر فخر ومباہات کیا جاتا ہے۔اسلام اس قسم کی فضول حرکات کی اجازت نہیں دیتا۔ ممکن ہے کہ قیامت کے دن اس جرم کی پاداش میں اسے دھر لیا جائے، لہذا بندہ مومن کو اس قسم کے کاروبار اور نمائشی اعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، پھر قرآن کریم نے اس قسم کے مصرف پر دولت خرچ کرنے کو اسراف وتبذیر کا نام دیا ہے۔ جو اخوان شیاطین کا وطیرہ تو ہوسکتا ہے۔ ایک پاک طینت انسان کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے ۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔عرصہ ہوا محترم شیخ محمد سعید ملتانی نے اپنے کاروبار کے متعلق لکھا تھا کہ میں کپڑے کا کاروبارکرتا ہوں ،ہمارا کاروبار خریدوفروخت میں نقد اور ادھار پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں چند ایک سوالات ہیں جن کی وضاحت درکا رہے، آج بھی اس وضاحت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے اس بنا پر یہ سوالات مع جوابات پیش خدمت ہیں: ( ہمارے پاس گاہگ آیا، اس نے ہم سے ریٹ پوچھا اور نقد رقم کی ادائیگی پر ہم سے مال لیا اور چلا گیا ،اس سودے بازی میں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ زیاد ہ نفع کمایا جائے اور گاہک کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رعایت لی جائے ،اس سلسلے میں شرعی طور پر ہم کس شرح سے نفع لے سکتے ہیں؟ جواب۔اسلام میں خریدو فروخت کے جائز ہونے کی چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں: 1۔فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔ 2۔فروخت کردہ اشیاء اور ان کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔ 3۔قابل فروخت چیز فروخت کنند ہ کی ملکیت ہواور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔ 4۔فروخت کرد ہ چیز میں کسی قسم کا کوئی عیب چھپا ہوا نہ ہو۔ 5 ۔کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو۔ 6۔کاروبار میں سودی لین دین بطور حیلہ جائز نہ قرار دیا گیا ہو۔ 7۔اس خریدوفروخت میں کسی فریق کودھوکا دینا مقصود نہ ہو۔ |