Maktaba Wahhabi

237 - 495
سوال۔ایمن آباد سے عبد الرحمٰن بھٹی لکھتے ہیں کہ بعض دکاندار نئے نوٹوں پر مشتمل /500 روپے والی کاپی/550رو پے میں فروخت کرتے ہیں،اسی طرح کنڈیکٹر حضرات ۔/10 روپے کے عوض 9 روپے کے سکے لیتے ہیں، اس کاروبار کی شرعاً کیا حیثیت ہے؟نیز نئےنوٹوں کے ہار بنانے پر جو محنت کی جاتی ہے اس کے عوض 500 روپے کے ہار پر پچاس روپے اضافی لیے جاتے ہیں۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔ جواب۔صورت مسئولہ میں نوٹوں کا نوٹوں سے تبادلہ کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ 1۔ایک ہی ملک کی کرنسی کامختلف مقدار کے نوٹوں کا باہمی تبادلہ۔ 2۔ایک ملک کی کرنسی کا دوسرے ملک کی کرنسی سے تبادلہ ۔ایک ہی ملک کے کرنسی نوٹوں کاتبادلہ مساوات اور برابری کے ساتھ جائز ہے۔اس میں نئے اور پرانے نوٹوں کی حیثیت ایک ہوگی۔اس کے برعکس اگر نئے نوٹوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کیا جائے ،مثلاً110 روپے کے عوض 100 روپے کے نئے نوٹ لینا یہ ناجائز ہے۔کیوں کہ ایسا کرنا صریح سود ہے۔جسے شریعت نے حرام ٹھہرایا ہے چونکہ ان کی قیمت خرید ایک جیسی ہے اور جہاں مقدار کااعتبار ہوتاہے وہاں اور اوصاف(نئے اور پرانے ہونا) کوکسی مقدار کے مقابلہ میں نہیں لایا جاسکتا کیوں کہ جو چیز شرعی طور پر یاعرف عام میں ثمن بن گئی ہو اس میں اوصاف کا اعتبار ختم ہوجاتاہے ،لہذا ایک روپیہ کا سکہ یا نوٹ خواہ وہ کتنا ہی نیا اور چمکدار ہو اس کی قیمت ایک ہی روپیہ رہے گی۔اسی طرح وہ سکہ یا نوٹ خواہ کتنا ہی پرانا اور میلا کچیلا ہو جائے اس کی قیمت بھی ایک ر وپیہ ہی ہوگی۔حالانکہ ان دونوں کے اوصاف میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔لیکن بازاری اصطلاح میں یہ فرق کالعدم ہوچکا ہے۔اس بنا پر اگر ایک روپیہ کو دو روپیہ کے عوض فروخت کیا جائے تو ناجائز ہوگا۔یہاں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک روپیہ کے مقابلے میں ایک روپیہ ہے۔ اور دوسرا روپیہ جو زائد ہے وہ دوسری طرف کے ر وپے کے کسی وصف(نئے ہونے) کے مقابلہ میں ہے، یہ تعبیر سرے سے غلط ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس دوسرے روپے کے مقابلے میں کوئی عوض موجود نہیں ہے، لہذا یہ سود ہے۔ پھر یہ برابری اور مساوات کرنسی نوٹوں کی مقدار اور گنتی کے لحاظ سے نہیں ہوگی۔بلکہ مساوات میں ان نوٹوں کی ظاہری قیمت کا اعتبار کیا جائے گا جو اس پر لکھی ہوئی ہے۔لہذا سو روپے کے ایک نوٹ کا تبادلہ پچاس روپے کے دو نوٹوں سے جائز ہے۔ اس تبادلے میں اگرچہ ایک طرف ایک نوٹ ہے۔ اور دوسری طرف دو ہیں۔ لیکن ظاہری قیمت کے لحاظ سے پچاس روپے کے دو نوٹوں کی قیمت سو روپے کے ایک نوٹ کے برابر ہے، لہذا مساوات گنتی میں نہیں بلکہ اس قیمت میں ہونی چاہیے جس کی وہ نوٹ نمائندگی کر رہا ہے۔ہاں اگر نوٹ بذات خود بحیثیت مادہ مقصود ہوں تو ان کی ظاہری قیمت مقصود نہ ہوگی جیسا کہ بعض لوگ مختلف ممالک کے سکے اور کرنسی نوٹ تاریخی یادگار کے طور پرجمع کرتے ہیں۔ان کا مقصد تبادلہ یا بیع ان کے ذریعے منافع حاصل کرنا نہیں تو بظاہر اس قسم کے تبادلے میں کمی وبیشی کی گنجائش نکل سکتی ہے۔لیکن سد باب کے طور پر اس سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف اجناس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کے درمیان کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ کرنا بالاتفاق جائز ہے، لہذا ایک ریال کا تبادلہ پاکستانی سولہ روپے سے کیا جاسکتا ہے ۔اس تفصیل سے معلوم ہواکہ نئے نوٹوں کے 500 روپے والا بنڈل 550 روپے میں فروخت کرنا ،اسی طرح کنڈیکٹر حضرات کا دس روپے کے عوض نو روپے کے سکے خریدنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
Flag Counter