Maktaba Wahhabi

236 - 495
لوگوں کو بیرونی قافلوں کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا اور جب بھی قافلہ آنے کی خوشخبری سنائی جاتی تو فاقہ زدہ معاشرہ کی حالت بسااوقات غیر ہوجاتی۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ دے رہے تھے کہ قافلہ آنے کی خبر ملی، خبر سنتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ کی حالت میں اکیلے چھوڑ کرقافلہ کی طرف دوڑ پڑی اور اس وقت خریدوفروخت کی مارکیٹ پر یہود کا قبضہ تھا ۔وہ قافلہ سے غلہ خرید کر بعد میں اپنی مرضی کی قیمت پر اسے فروخت کرتے تھے۔ایسی ضرورت کی اشیاء میں انہیں نقد کا گاہک بسہولت میسر تھا۔یہ لوگ نقد کی بجائے ادھا ر کو ترجیح کسی شوق یا جذبہ ہمدردی کی وجہ سے نہ دیتے تھے بلکہ مالی منفعت کی خاطر ادھار کا معاملہ کرتےتھے۔ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادھار کے معاملے میں غالب گمان یہی ہے کہ نقد کی نسبت سے ادھار میں قیمت کا تفاوت لازمی طور پر اختیار کیاگیا ہوگا، مالی منفعت اور زیادہ قیمت کی وصولی کے سوا یہودی کے اس اقدام کے لئے اور کوئی دوسرا محرک نظر نہیں آرہا تھا۔ آخر میں ہم شیخ عبدالعزیز ابن باز رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتویٰ درج کئے دیتے ہیں کیوں کہ اس فتویٰ سے مزید کئی پہلو روشن ہوتے ہیں۔شیخ صاحب سے کسی نے بایں الفاظ سوال کیا: ''بیع میں اگر نقد کی نسبت ادھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہوتو اس کا حکم کیا ہے؟'' اس پر آپ نے حسب ذیل جواب دیا: ''معلوم مدت والی بیع جائز ہے جبکہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں ،اس طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ یہ اقساط معروف اور مدت معلوم پر مشتمل ہوں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو! جب تم ایک مقرر ہ مدت کے ادھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیاکرو۔''(2/البقرۃ :282) نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کرکے کرے۔''(صحیح بخاری) حضرت بریرۃ رضی اللہ عنہ کے متعلق احادیث میں ہے کہ انہوں نے خود کو اپنے مالکوں سے اوقیہ چاندی میں خرید لیا کہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی ادا کرنا ہوگی۔(صحیح بخاری) یہی قسطوں والی بیع ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع کو معیوب خیال نہیں کیا بلکہ آپ خاموش رہے، اس سے منع نہیں فرمایا اوراس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یامدت کی وجہ سے زیادہ ہو۔(فتاویٰ شیخ عبدا لعزیز ابن باز:142) ایک اور فتویٰ میں آپ نے اس روایت سے بھی اس کے جواز پر استدلال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ وہ ایک لشکر ترتیب دیں اور اس کے لئے لوگوں سے حاضر اونٹ اس شرط پرخرید لیں کہ جب زکوۃ کے اونٹ آئیں گے تو ایک اونٹ کے عوض دو اونٹ دیئے جائیں گے۔''(مستدرک حاکم بیہقی) ا ن قرائن وشواہد کی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ نقد اورادھار کی قیمت میں فرق کیا جاسکتا ہے اور ادھار کی اقساط بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ معاملہ غلط ہے کہ اگر کسی ایک قسط میں دیر ہوجائے تو اس کی باقی اقساط ضبط کرلی جائیں یا مدت بڑھا کر ان میں مزید اضافہ کردیا جائے ایسا کرنا سراسر زیادتی اور ظلم کے ساتھ ساتھ صریح سود ہے۔(واللہ اعلم بالصواب)
Flag Counter