Maktaba Wahhabi

235 - 495
''ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اے ایمان والو! جب تم ایک وقت مقررہ تک ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔'' (2/البقرہ 282) اس آیت کو آیت مداینہ کہا جاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:'' کہ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے مقررہ مدت تک کئے ہوئے عقد سلم کے معاملہ کو اپنی کتاب میں آیت مداینہ کی رو سے حلال قرار دے کر اس کی اجازت دی ہے۔''(مستدرک حاکم :2/286) عقد سلم کی تعریف محدثین اورفقہاء نے بایں الفاظ کی ہے:''بیع اجل بعاجل''نقد پیشگی قیمت د ے کر آیندہ خرید کردہ چیز وصول کرنے کا عقد، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی مشتری مقررہ شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک ہزار رو پیہ دے اور یہ معاہدہ کرے کہ تم یہ رقم پیشگی وصول کرکے فلاں وقت مجھے اتنی گندم اس بھاؤ سے دینے کے پابندہو اور بائع بھی مقرر شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے رقم وصول کرکے معاہدہ کرے تو اسے عقد سلم کہا جاتاہے۔ اس عقد کی ماہیت پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہےکہ مشتری وقتی طور پر یکمشت زر سلم کی ادائیگی پر تیار ہوکر مہینوں تک خرید کر دہ چیز کی وصولی کا انتظار کرتا ہے ایسا کیوں ہے؟کیا اس میں فریق ثانی کی خیر خواہی اور ہمدردی مقصود ہے؟ہر گز نہیں اگر ایسی بات ہوتی تو اسے قرض حسنہ دیتا جو مشکل کے وقت ا س کے کام آتا۔متعدد شرائط کی رعایت کرکے پیشگی رقم دے کر مہینوں تک خرید کردہ چیز کی وصولی کا انتظار کرنے سے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا کہ اسے مقررہ وقت پرخرید کر دہ چیز ارزاں قیمت میسر ہوکیوں کہ عقد سلم میں خرید کردہ چیز بائع کو بازار کی قیمت سے سستی پڑتی ہے۔ اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ عقد سلم میں قیمت کی پیشگی ادائیگی اور خرید کردہ چیز کی تاخیر سے اس چیز کی قیمت متاثر ہوتی ہے۔عقد سلم میں ادھار شرط ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اس پر ایک عنوان بھی قائم کیا ہے اگر اس میں ادھار نہ ہوتو عقدسلم کی حقیقت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لہذا جب بیع آجل بعاجل میں ادھار کی وجہ سے قیمت میں تفاوت کا آنا ممنوع نہیں تو زیر نظر مسئلہ جودراصل بیع عاجل باآجل ہے۔اس میں قیمت کا تفاوت کیوں ممنوع قراردیا جائے۔ بلکہ نقد ادھار کی وجہ سے خرید کر دہ چیز اور اس کی قیمت کا متاثر ہونا یعنی کم یا زیادہ ہوناغیر مشروع نہیں اور نہ ہی سود کے زمرے میں آتاہے۔(فتدبر) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:''کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابولشحم نامی ایک یہودی سے تیس صاع جو ادھار پر لئے اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی۔''(بخاری ،کتاب البیوع ،باب شراء النبی بالنسیئہ) ہم یہودی کے اس معاملہ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک متعصب دشمن اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اور اس کے بعد ر وز مرہ ضروریات میں کام آنے والی چیز زرہ کو رہن رکھنے کے پس پردہ واقعات کاجائزہ لینے سے جوصورت سامنے آتی ہے اس میں زیر نظر مسئلہ کے جواز پرقوی شواہد موجود ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ میں جب کسی چیز کی مانگ زیادہ ہوتو اس کے خریدار بھی بڑھ جاتے ہیں ، اور جب خریدار زیادہ ہوں تو اس چیز کے نقد فروخت ہونے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں ایسے موقع پر بائع ادھار کی نسبت نقد کوزیادہ ترجیح دیتا ہے۔ہاں اگر اسے ادھار فروخت کرنے میں مالی منفعت زیادہ نظر آئے تو پھر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معاملہ کے وقت مدینہ منورہ کی معاشی حالت یہ تھی کہ غلہ کی ضرورت بہت زیادہ تھی عموماً
Flag Counter