Maktaba Wahhabi

234 - 495
صورت یہ روپیہ یا دوسرا سیر وصف جودت کا عوض ثابت ہوگا اور وصف کا عوض لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن بہتر کھجور کو عام نرخ سے زیادہ قیمت پرخریدنا بالکل جائز ہے کیوں کہ یہاں قیمت کا اضافہ اس کے وصف(عمدگی) کی وجہ سے اس وصف کا عوضانہ نہیں ہے ۔ آپ نے ملتان سے لاہور جانے کا پروگرام بنایا ہے اس کے لئے عام گاڑی، اے سی اور ہوائی جہاز تین ذرائع ہیں ، ان تینوں ذرائع کا کرایہ الگ الگ ہے، یہ تفاوت ان ذرائع میں دی گئی سہولتوں کے پیش نظر ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ اصل کرایہ تو عام گاڑی کا ہے تو باقی جو کرایوں میں تفاوت ہے وہ ان سہولتوں کاعوض ہے جو آپ کو دی گئی ہیں ،اب آپ ادھار پر فروخت کی گئی چیزکی مدت پر غور کریں کہ نفس اجل کا عوض لینا ناجائز ہے لیکن اس کی وجہ قیمت کابڑھ جانا فطری اور عقلی بات ہے اور شریعت نے اس سے منع نہیں کیا ،اسی کو فقہائے اسلام نے یوں تعبیر کیا ہے: ’’ان ا لاجل لا يقابلہ الثمن ان الثمن يزاد لاجل الاجل‘‘ ثمن،اجل کا عوض نہیں ہوتی، البتہ اجل کی وجہ سے اس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ نفس اجل پر عوض لینے کی صورت یوں ہوسکتی ہےکہ ایک ماہ پر کسی چیز کا ادھار سودا ہوا کہ اس کی قیمت ایک ہزار روپیہ ایک ماہ پر ادا ہوگی۔جب خریدار نے ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا نہ کی تو اسے کہا جائےکہ آپ دوسرے ماہ کے اختتام پر اس کی قیمت ادا کر دیں لیکن ساتھ پچاس روپے اضافی طور پردیں۔یہ صورت ناجائز ہے۔ کیوں کہ اس میں اجل کو فروخت کیا گیا ہے اور پچاس روپے اس اجل کا عوض ہیں ۔اس کے برعکس اجل ایک وصف مرغوب ہے کہ مشتری کو فوری طور پر رقم ادا نہیں کرنی پڑتی ، آسانی سے کام چلا لیتا ہے۔ا س لئے وہ چیز ادھار پر دینے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ اس بیع مؤجل اور معاملہ سود میں فرق یہ ہے کہ سودی معاملہ میں اصل دین (قرض) پرمہلت کے عوض اضافہ ہوتا ہے جبکہ بیع موجل میں مہلت کی وجہ سے بوقت عقدزیادہ قیمت طے کی جاتی ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ سودی معاملہ میں مدت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس زیادتی میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ بیع مؤجل میں ایک ہی دفعہ قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے،بار بار ایسا نہیں کیا جاتا، ہم اسے ایک مثال سے سمجھاتے ہیں: اگر مشتری نے کوئی چیز دس روپے میں اس شرط پر خریدی کہ ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا کرے گا۔اگر وہ ایک ماہ کے بجائے دو ماہ میں قیمت ادا کرے تو بھی وہ دس روپے ہی ادا کر ےگا۔اب مدت کی زیادتی کی وجہ سے قیمت میں زیادتی نہیں ہوگی۔لیکن اگر بائع معاملہ طے ہونے کے بعد ایک ماہ کی تاخیر پر دو ،پھر دو ماہ کی تاخیر پرچار اور اسی طرح تین ماہ کی تاخیر پر چھ روپے اصل طے شدہ رقم سے زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ قارئین کرام! جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ زیر نظر مسئلہ یعنی نقد اور ادھار کے بھاؤ میں کمی بیشی کرنا شرعاً جائز ہے کیوں کہ یہ ادھار خریدوفروخت کی ہی ایک صورت ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔اور اس کے متعلق صریح نصوص موجود ہیں، تاہم ادھار کی بنا پر قیمت زیادہ وصول کرنا فکر ونظر اور غور وخوض کا متقاضی ہے کیوں کہ خریدوفروخت کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں ادھار جائز نہیں ہے جیسا کہ سونے کے بدلے سونا یا گندم کے عوض جو لینا ،اسی طرح بعض صورتیں ایسی ہیں کہ کسی طرف سے اضافہ حرام ہے،جیسا کہ چاندی کے بدلے چاندی کا کاروبار کرنا، نیز ادھار کی وجہ سے قیمت بڑھا دینا کسی صریح نص سے ثابت نہیں ہے ۔البتہ قرائن وشواہد اور استنباط واستخراج سے اس کاجواز ملتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
Flag Counter