پر ربا کی تعریف بھی صادق نہیں آتی۔کیونکہ وہ قرض نہیں اور نہ ہی اموال ربویہ کی خریدوفروخت ہورہی ہے بلکہ یہ عام بیع ہے اور اس عام بیع میں فروخت کنندہ کو شرعاً مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز جتنی قیمت پر چاہے فروخت کرے اور اس کے لئے شرعاًیہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی چیز کو بازار کے بھاؤ سے فروخت کرے اورقیمت کی تعیین میں ہر تاجرکا اپنا ایک اصول اور انداز ہوتا ہے اس پر پابندی نہیں ہے کہ وہ ایک متعین ریٹ پر اپنی اشیاء کو فروخت کرے اور اس سلسلہ میں ہمارا بیان کردہ دوسرااصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ بعض اوقات ایک ہی چیز کی قیمت حالات کے اختلاف سے مختلف ہوتی ہے۔ اگر کوئی بائع اپنی چیز کی قیمت ایک حالت میں کچھ مقرر کرے اور دوسری حالت میں کوئی دوسری مقرر کردے تو شریعت نے اس پر کوئی قد غن نہیں لگائی، لہذا اگر کوئی شخص اپنی چیز نقد آٹھ روپے میں اور ادھار دس روپے میں فروخت کرتاہے تو اس شخص کے لئے بالاتفاق یہ جائز ہے کہ وہ اسی چیز کو نقد دس روپے میں فروخت کردے۔بشرطیکہ اس میں ضرر یا غرر نہ ہو۔ اور جب دس روپے میں فروخت کرنا جائز ہے تو ادھار د س روپے میں فروخت کرنا کیوں ناجائز ہوا۔'' (فتدبر) اب ہم قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ زیر نظر مسئلہ میں نقد کی نسبت سے ادھار قیمت میں یہ تفاوت کیا ادھار کا عوض ہے۔ یا ادھار کی وجہ سے ہے؟ان دونوں کے درمیان ما بہ الامتیاز کیا ہے تاکہ بذریعہ نص ہوناحرام اور ناجائز سود سے اس کا فرق ہوسکے۔ واضح رہے کہ ادھار کی وجہ سے قیمت میں یہ تفاوت ادھار کا معاوضہ نہیں ہے۔ کیوں کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس ادھار کی قیمت میں کچھ قیمت تو بیع کی ہو اور کچھ قیمت اس اجل کی ہو جو عاقدین نے قیمت کی ادائیگی کے لئے طے کی ہے۔بلکہ معاشرتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ادھار میں جو سہولت میسر آتی ہے اس کی وجہ سے کچھ اضافہ ہوا ہے۔ہم آسانی کے پیش نظر اسے یوں تعبیر کرتے ہیں:''ان الزياد ة هٰهنا لاجل الاجل لا لعوض الاجل ''یہاں پرقیمت میں اضافہ ادهار كی وجہ سے ہے ادھار کے عوض میں نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں اس قسم کی متعدد نظائر پائی جاتی ہیں جس میں ادھا ر کی وجہ سے قیمت میں زیادتی آتی ہے۔جنھیں ہم آیندہ بیان کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجل ایک وصف ہے اور وصف کا معاوضہ نہیں ہوتا۔ لیکن وصف کے مرغوب ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ سکتی ہے۔ اور وصف کے ناپسند ہونے کی وجہ سے قیمت کم ہوجاتی ہے۔اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صاع کھجور کے عوض ایک صاع کھجور لینے کو ناجائز ٹھہرایا ہے۔آپ نے اس کے متعلق مزید تاکید کی ہے کہ عمدہ کھجور کا بھی مقابلہ ہوتو برابر برابر لینا ہوگا۔اس کے عمدہ ہونے کی صورت میں اضاضہ نہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی لے سکتے ہیں۔بہترین کھجور کے ایک سیر کے بدلے میں معمولی کھجور کے دو سیر دینے سے منع فرمادیا کیوں کہ اس میں سیر کے بدلے میں آجاتا ہے اور دوسرا سیر اس کے وصف جودت(عمدگی) کے عوض میں لیا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تدبیر یوں فرمائی کہ ردی کھجور کو کم قیمت میں فروخت کردو ،پھر حاصل ہونے والے زرثمن سےبہتر کھجور کو زیادہ قیمت خرید سے خریدلو ۔ اس معاملہ میں بہتر کھجور کی قیمت میں اضافہ اس کے وصف مرغوب کی وجہ سے ہے ۔اس عقلی اور فطری بات سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ مرغوب چیز کی قیمت بمقابلہ نا مرغوب کے زیادہ ہوگی ۔لیکن یہ صورت ناجائز ہے کہ ایک سیر بہتر کھجور کے بدلہ میں دوسیر معمولی کھجور دی جائے، اس طرح یہ بھی ناجائز ہے کہ بہتر کھجور والے کو معمولی کھجور کا ایک سیر اور اس کے ساتھ ایک روپیہ دیا جائے کیوں کہ اس |