Maktaba Wahhabi

214 - 495
ٹیکہ تو کسی صورت میں جا ئز نہیں کیو نکہ اس سے روزہ ٹو ٹ جا تا ہے۔ اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ اس طرح وید یعنی رگ میں لگایا جا ئے یا جسم کے کسی اور حصہ میں ،اگر بطو ر دواٹیکہ لگوانا ہے یا کسی جگہ بہت درد ہے اسے آرام دینے کے لیے ٹیکہ لگو انے کی ضرورت ہے یا جسم کے کسی حصہ کو بے حس کرنا ہے جیسا کہ دانت وغیرہ نکلواتے وقت کیا جا تا ہے، ان صورتو ں میں ٹیکہ لگانے کے لیے گنجا ئش ہے۔ بعض دفعہ شدید بخا ر ہو تا ہے اس کی شدت کو کم کر نے کے لیے ٹیکہ لگو ایا جا سکتا ہے ، ارشا د باری تعا لیٰ ہے : ’’ کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر دین کے متعلق کو ئی تنگی نہیں رکھی ہے ۔‘‘ سوال۔ لیہ سے محمد امین دریا فت کر تے ہیں کہ بحا لت روزہ کسی مر یض کو خو ن کا عطیہ دینا جا ئز ہے ؟ جواب ۔بحا لت روزہ کسی مر یض کی جا ن بچا نے کے لیے خو ن کا عطیہ جائز ہے لیکن خون دینے والے کو بعد میں روزہ رکھنا ہو گا کیونکہ جسم سے کا فی خو ن نکا لنے سے روزہ ٹو ٹ جا تا ہے، اسے سینگی لگوا نے کے عمل پر قیا س کیا جا ئے گا، اگر قلیل مقدار میں خون نکا لا جا ئے تو اس سے روزہ نہیں ٹو ٹتا ہے جیسا کہ کسی مرض کی تشخیص کے لیے سر نج کے ذریعے خون کی کچھ مقدار نکا لی جا تی ہے، نیز نکسیر یا مسواک یا دا نت نکلوا تے وقت خو ن آجا نے سے بھی روزہ نہیں ٹو ٹتا ۔ سوال ۔ چیچہ وطنی سے محمد اقبا ل پو چھتے ہیں کہ مر یض کے لیے قضا یا فد یہ کی کیا حد ہے، یعنی وہ کو نسی مر ض ہے جب فدیہ دینا ہو تا ہے اور کس مر ض کی وجہ سے قضا دینا پڑتی ہے ؟ جوا ب۔ اگر کسی کو ایسا مر ض لا حق ہو جو مستقل ہو اور اس سے شفا یا بی کی امید نہ ہو تو ایسے مر یض کے لیے فدیہ دینا ضروری ہے، یعنی ایک روزہ کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھا نا کھلا دے یا گھر میں اوسط درجے کا جو کھا نا تیا ر ہو تا ہے اس کی قیمت ادا کرے ،اگر ایسی بیما ری ہے جس سے زود یا بدیر شفا یا بی کی امید ہے اور ایسے مر ض کی وجہ سے روزہ رکھنے میں وقت ہے تو روزہ چھو ڑ دے، رمضان کے بعد جب بھی فرصت ملے تو قضا شدہ روزوں کو گنتی کے حسا ب سے پو را کر ے۔ ارشا د با ر ی تعا لیٰ ہے:’’ جو کوئی بیما ر ہو یا بحا لت سفر ہو تو اسے چا ہیے کہ دوسرے دنو ں میں گنتی پو ری کر ے۔‘‘ (یعنی اس دورا ن جتنے روزے رہ گئے ہیں انہیں رمضا ن کے بعد پو ر ا کر ے )۔ سوال ۔خا نیوا ل سے ابو بکر پو چھتے ہیں کہ دوا کے سا تھ غرار ے کر نے سے کیا روزہ ٹو ٹ جا تا ہے یا نہیں ؟ جواب ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دا ر کو بو قت وضو مبا لغہ کے سا تھ نا ک میں پا نی چڑھا نے سے منع کیا ہے ۔حدیث میں ہے :’’ کہ وضو کرتے وقت نا ک میں مبا لغہ کے سا تھ پا نی چڑ ھا ؤ ،الا یہ کہ تم بحا لت روزہ ہو ۔‘‘ (سنن ابی داؤد :الطہا ر ۃ 142) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کے لیے یہ پا بندی اس لیے لگا ئی ہے کہ مبا دا پا نی پیٹ میں چلا جا ئے اور اس کا روزہ خراب ہو جا ئے ،غرار ے کر نے کو بھی اس پر قیا س کیا جا سکتا ہے ،لیکن اگر اس کے بغیر چا رہ کا رنہ ہو تو احتیا ط کے سا تھ غرار ے کیے جا ئیں تا کہ پا نی حلق کے نیچے نہ اترے ،ایسا کر نے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا مگر یا د رہے کہ انتہا ئی شدید ضرورت کے پیش نظر ایسا کر نا چا ہیے، گلے میں معمو لی سی خرا ش کے لیے نمک یا کو ئی اور محلو ل پا نی میں ملا کر غرار ے کر نے سے پر ہیز کر نا چا ہیے ۔ سوال۔ ام کلثو م بذریعہ ای میل سوال کر تی ہیں کہ روزے رکھنے کے لیے مانع حیض ادویا ت کا استعما ل شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟ کتا ب و سنت کی روشنی میں جوا ب دیں ۔
Flag Counter