Maktaba Wahhabi

211 - 495
حجیرہ نا می ایک عورت کا بیا ن ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نما ز کے لیے ہما ری امامت کرا ئی اور وہ عورتوں کے درمیا ن کھڑی ہو ئیں ۔(بیہقی :ج 3ص131) حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما فر ما تے ہیں "کہ عورت دیگر عورتو ں کی جما عت کرا سکتی ہے لیکن وہ آگے کھڑے ہو نے کے بجائے عورتو ں کے درمیا ن کھڑی ہو ۔ "(مصنف ابن ابی شیبہ :ج1ص536) ان احا دیث و آثا ر کے پیش نظر عورت دوسری عورتوں کی جما عت کرا سکتی ہے لیکن جما عت کرا تے وقت اسے عورتوں کے درمیان کھڑا ہو نا چاہیے ۔بعض روایا ت میں اس با ت کی بھی صراحت ہے کہ رمضا ن المبارک میں عورتو ں کی جما عت کرا سکتی ہے جیسا کہ امام شعبی سے منقول ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :ج 1 ص536) سوال۔ہڑپہ سے امت الرشید دریا فت کر تی ہیں کہ ایک روزہ دا ر خاتون کو عصر کے بعد ما ہو ار ی آگئی ،اب وہ اپنے روزے کو مکمل کر ے یا ترک کر دے ؟ جواب ۔ خو ن حیض یا نفاس ایسا خو ن ہے جو روزے کو ختم کر دیتا ہے۔ اس خو ن کے آجا نے سے روزہ خو د بخو د ختم ہو جا تاہے ۔ لہذا جس روزہ دار خاتون کو عصر کے بعد یا مغرب سے چند منٹ پہلے حیض آگیا اس کا روزہ ٹوٹ گیا ، اسے چا ہیے کہ مخصوص ایا م میں رہ جا نے والے روزوں کی رمضا ن کے بعد قضا دے، ان ایا م میں رہ جا نے والی نمازوں کی قضا نہیں۔ ان ایا م میں جو روزے رہ گئے ہوں آیندہ رمضا ن سے پہلے پہلے انہیں رکھ لینا چا ہیے ،دانستہ دیر کر نا شر عاً نا پسندیدہ عمل ہے، نیز اگر طلوع فجر سے پہلے خو ن حیض کی بندش کا یقین ہو گیا تو اس دن کا روزہ رکھنا چاہیے، اس حا لت میں روزہ رکھا جا سکتا ہے اگر چہ غسل نہ کیا ہو، غسل وغیرہ روزہ رکھنے کے بعد نماز سے پہلے کر لینا چا ہیے، روزہ کے لیے خو ن کا بند ہو نا ضروری ہے ،غسل کر نا روزے کے لیے شرط نہیں ہے ۔ سوال۔ملتا ن ہی سے محمد اکر م سوال کر تے ہیں کہ میرے بھا ئی کا ایک گردہ خرا بی کی وجہ سے نکا ل دیا گیا ہے، اب ایک ہی گردہ کام کر تا ہے، اس کے لیے ڈا کٹروں کی ہدا یت ہے کہ وقفے وقفے سے پا نی پیا جا ئے ،بصورت دیگر اس کے خرا ب ہو نے کا اند یشہ ہے، روزہ کی صورت میں کیا کیا جا ئے ، قرآن و حدیث کی روسے اس کا کیا حل ہے ؟ جواب ۔ شریعت نے ہمیں احکا م و فرا ئض بر وقت ادا کر نے کی تلقین کی ہے لیکن اگر شر عی عذر ہو تو انہیں مقررہ وقت کے بعد بھی ادا کیا جا سکتا ہے، کسی فرض کو اس کے وقت کے بعد بجا لا نا قضا کہلا تا ہے، روزہ کے متعلق بعض عذر ایسے ہیں جو قضا کا با عث ہیں اور بعض فدیہ کا مو جب ہیں ،ان میں سے ایک بیما ری بھی ہے، اگر بیما ری اس قسم کی ہے کہ روزہ رکھنے میں کو ئی وقت نہیں جیسا کہ معمولی نزلہ و زکا م وغیر ہ ہو تو روزہ رکھنا چا ہیے اگر روزہ رکھنے سے مشقت ہو تی ہو یا بیما ری کے بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایسی حالت میں روزہ چھو ڑا جا سکتا ہے، قرآن کر یم نے اجا ز ت دی ہے کہ دورا ن مر ض جتنے روزے رہ جا ئیں انہیں بعد میں رکھ لیا جائے ۔صور ت مسئولہ میں اگر تجر بہ کا ر اور سمجھ دار ڈا کٹر کی ہدا یت یہی ہے کہ اسے با ر با ر پا نی پینا چا ہیے تا کہ گر دہ صا ف ہو کر اپنی کا ر کر دگی سرانجا م دیتا رہے تو ایسے شخص کو اجا زت ہے کہ وہ بطو ر فد یہ کسی مسکین کو روزے رکھو ادے کیو نکہ یہ شخص اگرچہ بظا ہر
Flag Counter