Maktaba Wahhabi

202 - 495
تا لیف میں ایک با ب با یں الفا ظ قا ئم کیا ہے : "کہ جو شخص قر با نی کا جا نو ر خرید نے کے بعد اسے تبدیل کر لیتا ہے ،پھر اس کے تحت ایک روایت لا ئے ہیں کہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہماسے ایک شخص کے با ر ے میں سوال ہو ا جو قر با نی کا جانور خریدتا ہے،پھر اسے فروخت کر کے اس سے مو ٹا تازہ خریدتا ہے تو آپ نے رخصت کا ذکر فر ما یا ،اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ (مجمع الز وائد :21/4) ان روا یا ت کے پیش نظر قر با نی کا جا نو ر فرو خت کر کے اس سے بہتر خرید ا جا سکتا ہے اور کسی بہتر جا نو ر سے اس کا تبا دلہ کیا جا سکتا ہے اور جو حضرا ت قر با نی کا جا نو ر متعین کر نے کے بعد اسے فرو خت یا تبا دلہ کو نا جا ئز کہتے ہیں ان کا مو قف ہے کہ قر با نی چو نکہ وقف کی طرح ہے ،اس لیے اس میں خریدو فرو خت یا تبا دلہ جیسا تصرف درست نہیں ہے ،چنا نچہ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ھدی کے طور پر عمدہ اونٹ کا انتخاب کیا ، بعد میں کسی نے اس کی تین سو دینا ر قیمت لگا دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س آئے اور بتا یا کہ میں ایک عمدہ اونٹ ھدی کے طور پر مکہ مکرمہ بھیجنے کا پرو گرا م بنا چکا ہو ں ، اب مجھے اس کا تین سو دینا ر ملتا ہےکیا میں اسے فرو خت کر کے مز ید اونٹ خرید سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :’’ نہیں تم اسی کو ذبح کر و ۔‘‘ (ابو داؤد:المناسک) اس روایت کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیا ن کیا ہے لیکن اس میں عمدہ اونٹ کے بجا ئے بختی اونٹ کا ذکر ہے جس کی گردن ذرا لمبی ہوتی ہے اور وہ بھی بہترین اونٹوں میں شما ر ہو تا ہے ۔(مسند امام احمد ج 4 ص 145) منتقی الاخبا ر میں اس حدیث پر با یں الفا ظ عنوان قا ئم کیا گیا ہے :’’ھدی کو متعین کر نے کے بعد اسے بد لنا جا ئز نہیں ہے ۔‘‘چنانچہ علامہ شو کا نی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح کر تے ہو ئے لکھتے ہیں :" کہ یہ حدیث اس با ت پر دلا لت کر تی ہے کہ ھدی کی بیع درست نہیں ہے، خوا ہ اس جیسی یا اس سے بہتر کا تبادلہ مقصود ہو ۔(نیل الاطار :ج 5ص 185) چنانچہ قر با نی بھی ھدی کی طرح ہے اس بنا پر قر با نی کا جا نو ر بھی فروخت یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا ان حضرات کا کہنا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ حدیث اس مسئلہ پر واضح نہیں ہے، نیز محدثین کے قا ئم کر دہ معیا ر صحت پر بھی پو ری نہیں اتر تی کیو ں کہ اس میں ایک راوی شبیب بن غر قدہ کہتے ہیں کہ میں نے حی یعنی قبیلہ سے سنا جو عروہ با رقی رحمۃ اللہ علیہ سے بیا ن کر تا ہے اس قبیلہ کے افراد کی تعیین نہیں ہو سکی ،لہذا اس "جہا لت "کی وجہ سے یہ حدیث قا بل استدلا ل نہیں ہے ،چنا نچہ چند ایک ائمہ حدیث نے اس حدیث پر اعترا ضات کیے ہیں جن میں علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ سر فہرست ہیں۔(فتح البا ری :ج 6/ص774) جہاں تک بخا ری کی حدیث کے ضعف کا مسئلہ ہے اس کے متعلق ہماری گزا رش ہے کہ محدثین کے فیصلے کے مطا بق جس راوی کو امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں لا ئے ہیں وہ جرح و تعد یل کا پل عبو ر کر چکا ہے ،یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق خوب چھا ن پھٹک کر نے کے بعد اسے اپنی صحیح میں لا ئے ہیں ،لہذا اس حدیث پر بلا وجہ اعترا ض درست نہیں ہے، ہا ں علا مہ خطا بی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو غیر متصل قرار دیا ہے۔ اس کا جوا ب حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ جب سماع کی تصریح موجو د ہے تو اسے مرسل یا منقطع کیو نکر کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ روایت ایسی متصل ہے جس کی سند میں ایک مبھم راوی ہے، پھر اس "مبھم حی " کے متعلق لکھتے ہیں کہ انہو ں نے ایک جما عت سے سنا ہے کہ جس کے کم از کم تین افراد ہیں ۔(فتح البا ری۔ج6ص774) پھر آگے چل کر لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ کی شر ط کے عین مطا بق ہے کیو ں کہ عا م طور پر ایک قبیلہ کا جھو ٹ پر
Flag Counter