Maktaba Wahhabi

203 - 495
اتفا ق کر لینا نا ممکن ہے ۔(فتح البا ری :ج6ص775) پھر اس حدیث کے متا بعا ت و شوا ہد بھی ملتے ہیں جو اس کی تا ئید کر تے ہیں جن میں "حی"کے بجا ئے ابو لبید لما زہ بن زیاد رحمۃ اللہ علیہ حضرت عروہ بارقی سے نقل کر تے ہیں ۔ (مسند امام احمد ۔ج 4ص376) امام منذری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر بحث کر نے کے بعد لکھتے ہیں کہ امام تر مذی رحمۃ اللہ علیہ نے بکر ی خریدنے والی اس روایت کو ابو لبید لما ذہ بن زیا د رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیا ہے جو حضرت عروہ با رقی رحمۃ اللہ علیہ سے بیا ن کر تے ہیں، اس طریق سے یہ روایت حسن قرار پا تی ہے ۔(مختصر ابی داؤد ،ج5ص51) اس متا بعت کے علا وہ حضرت حکیم بن حز ام کی حدیث کو بطو ر شا ہد پیش کیا جا سکتا ہے ،الغرض یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کسی طرف سے ضعف کا شائبہ تک نہیں ہے، البتہ ما نعین کی طرف سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جو حدیث پیش کی گئی ہے، اس کے متعلق ہما ر ی گزارشا ت حسب ذیل ہیں : حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے نا قابل حجت ہو نے کی طرف اشا رہ کیا ہے، فر ما تے ہیں ’’کہ محدث ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہے لیکن اس سے حجت لینے میں توقف کیا ہے ۔‘‘ (التہذیب : ج2ص121) اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس روایت میں ایک راوی جہم بن جا رود ہے جو حضرت سا لم بن عبد اللہ سے بیا ن کر تا ہے ، اس کے متعلق امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں "کہ اس جہم کا حضرت سا لم سے سما ع معروف نہیں ہے ۔ (تا ریخ کبیر ،ص230ج2 القسم الثانی ) اس کے علا وہ جہم بن جا رود بھی غیر معروف راوی ہے ،چنا نچہ اس کے متعلق امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ یہ بڑے بڑے تا بعین سے روایت کر تا ہے لیکن خو د مجہو ل ہے ۔(دیوا ن الضعفاءص47رقم793) نیز فر ما تے ہیں: ’’ کہ اس راوی میں جہا لت ہے، خا لد بن ابی یزید کے علا وہ اس سے اور کو ئی راوی بیان نہیں کرتا۔‘‘(میزان الاعتدال،ج3ص426) محدثین کے ہا ں کسی راوی کی جہا لت صرف اسی صورت میں دور ہو سکتی ہے کہ کم از کم اس سے بیان کر نے وا لے دو ثقہ راوی ہوں۔ امام ذھبی نے مذکور ہ با ت کہہ کر اس با ت کی تو ثیق کی ہے کہ اس کی جہا لت بد ستو ر قا ئم ہے کیو ں کہ اس سے صرف ایک راوی بیان کرتا ہے اور مجہو ل کی روایت نا قا بل قبو ل ہو تی ہے، بلا شبہ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس راوی کو چھٹے درجے کا مقبول راوی بنا دیا ہے ۔(التقریب ۔ج1ص135) لیکن اس لفظ سے اکثر اہل علم دھو کہ کھا جاتےہیں ،حالا نکہ اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ مرو یا ت متا بعت کے بغیر قبو ل نہیں ہوتیں جیسا کہ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مقد مہ میں رواۃ کی درجہ بند ی کر تے ہو ئے وضا حت کی ہے "چھٹے درجے سے مراد وہ راوی ہیں جن سے بہت کم احا دیث مرو ی ہیں لیکن ان میں کو ئی ایسا سقم نہیں ہو تا جس کی وجہ سے ان کی مرویات کو رد کر دیا جائے ، ایسے حضرا ت کے متعلق "مقبو ل "کا لفظ استعما ل ہو گا ،مطلب یہ ہے کہ اگر متا بعت ہو تو مقبو ل ،بصورت دیگر ان کی مرویات کمز ورہو ں گی ۔(مقد مہ :ص5) زیر بحث حدیث کی متا بعت نہیں مل سکی اور نہ ہی اس کی تا ئید میں کو ئی شا ھد پیش کیا جا سکتا ہے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اس
Flag Counter