Maktaba Wahhabi

200 - 495
اور مجا ہدین کو دینی چا ہیے۔ میر ے الفا ظ میں طا لبا ن دین اور مجا ہدین کا اضا فہ کر کے خیا نت کی گئی ہے، میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ قر با نی کی کھا ل یا اس کی قیمت فقرا اور مسا کین کو دینی چا ہیے۔(ملا حظہ ہو احکام صیا م و مسا ئل عیدین و آداب قربا نی 117) قربا نی کی کھال سے قر با نی کر نے والا خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس کا مصلیٰ وغیرہ بنا کر اپنے استعما ل میں لاسکتا ہے، اسے فرو خت کر کے اس کی قیمت اپنے ذا تی استعما ل میں درست نہیں ہے اور نہ ہی اس کھا ل کو اجرت کے عو ض دینا چا ہیے بلکہ قصا ب کو مزدوری اپنی گرہ سے دینی چا ہیے جیسا کہ حدیث با لا سے وا ضح ہے ۔ سوال ۔ایک آدمی حج کر نا چا ہتا ہے لیکن اس کے پا س صرف پچا س ہزار روپے تھے جو فریضہ حج کی ادا ئیگی کے لیے کا فی نہیں۔ چند مخیر حضرات نے زکو ۃ سے اس کی بقیہ رقم پو ری کر دی، اس شخص کی حج کے لیے دی ہو ئی درخو است منظور ہو گئی لیکن وہ حج پر جانے سے پہلے فوت ہو گیا ، اب در یا فت طلب امر یہ ہے کہ حج کے لیے بینک میں جمع شدہ رقم کی کیا حیثیت ہو گی کیا وہ تمام رقم زکو ۃ شما ر ہو گی یا مرحو م کا تر کہ خیال کیا جا ئے گا یا صرف وہی رقم زکو ۃ شما ر ہو گی جو مخیر حضرا ت نے زکو ۃ سے دی تھی، قرآن و حدیث کے مطابق اس کا جوا ب دیں تا کہ ہماری الجھن دور ہو جا ئے ۔(حا جی نو ر اللہ -----گو جر ا نو الہ ) جوا ب۔بشر ط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسئو لہ میں مذکو رہ آدمی کے پا س جو رقم پہلے سے مو جود تھی اور جو مخیر حضرات نے ما ل زکو ۃ سے اسے دی سب اس کی ذاتی شما ر ہو گی اور اس کے فو ت ہو نے کے بعد اس کے ورثاء اس تر کہ کے حق دار ہیں۔ اس میں زکو ۃ اور غیر زکوۃ کی تمیز نہیں ہو گی کیوں کہ صدقہ و خیرات جب اپنے مقا م پر پہنچ جا تا ہے تو اس کے احکا م بدل جا تے ہیں اور لینے والے کے لیے ذا تی ملکیت بن جاتی ہے، پھر وہ اس میں جیسے چا ہے تصرف کر سکتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ گو شت لا یا گیا، دریا فت کر نے پر بتا یا گیا کہ یہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ پر صدقہ کیا گیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فر ما یا :’’یہ گو شت بریرہ کے لیے صدقہ تھا اور ہما رے لیے ہدیہ ہے۔‘‘ (صحیح بخا ری ،الھبہ 2577) حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے وہ گو شت ہدیہ کے طور پرآ پ کے گھر بھیجا تھا،اس لیے آپ نے اسے اپنے لیے ہد یہ قرار دیا،اسی طرح ایک واقعہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بھی مرو ی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبو ل کرتے ہو ئے فرمایا تھا :’’ یہ گو شت اپنے مقا م کو پہنچ چکا ہے ۔‘‘ (صحیح بخا ری ،الھبہ 2579) اس پر امام بخا ر ی رحمۃ اللہ علیہ نے یو ں باب قا ئم کیا ہے ’’جب صدقہ کی حیثیت تبدیل ہو جا ئے۔‘‘ حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تشریح کر تے ہو ئے لکھتے ہیں کہ:" صدقہ جب فقیر کے پا س پہنچ جا تا ہے تو اس میں اس کے لیے تصرف کر نا جا ئز ہے، یعنی اسے فرو خت کرنا یا کسی دوسرے کو ھبہ کر نا جا ئز ہے ۔(فتح البا ری :ج 3ص 449) مذکو رہ سوال میں جو رقم، مخیر حضرا ت نے بطو ر زکو ۃ اسے دی تھی، اب وہ اس کی ملکیت شما ر ہو گی، اس کے مر نے کے بعد اس تمام رقم میں وراثت کا قا نو ن جا ری ہو گا ۔(واللہ اعلم ) سوال۔قر با نی کا جا نو ر خرید نے کے بعد کسی بہتر جا نو ر سے تبا دلہ کرنا یا اسے فرو خت کر کے اس سے بہتر جا نو ر خرید نا شر عاً جا ئز ہے یا نہیں ؟(ایک سا ئلہ خریداری نمبر 3480)
Flag Counter