Maktaba Wahhabi

199 - 495
اس سند میں محمد بن قر ظہ ایک راوی ہے جو جا بر جعفی کا استا د ہے کتب جرح میں اسے مجہول قرار دیا گیا ہے۔(خلا صۃ تہذیب الکمال :356) (2)یہ کو ئی ایسا عیب نہیں ہے جو قر با نی کے لیے رکا وٹ کا با عث ہو، یعنی جا نو ر کی چکی ہو یا نہ اس میں نقص پڑ جا ئے تو بھی قر با نی ہو جا تی ہے جیسے قر با نی کے جا نو ر کا دا نت ٹو ٹ جا ئے تو بھی قر با نی ہو جا تی ہے ۔ مختصر یہ ہے کہ جا نو ر نا مزد ہو نے کے بعد اگر عیب پڑ جا ئے تو اس کے بدلے دوسرا جا نو ر ذبح کر نا چا ہیے ۔ سوال ۔ ملک محمد یو نس ایک سوال کر تے ہیں کہ قر با نی کے جا نو ر کی ہر چیز استعما ل میں لا ئی جا سکتی ہے قربا نی دینے والا انہیں فروخت کیے بغیر کھا ل وغیرہ بھی اپنے مصرف میں لا سکتا ہے اگر اس کے نا خن کسی دوا میں استعمال کیے جا ئیں تو اس کی شر عی حیثیت کیا ہے کیا ایسی دوا کو فروخت کیا جا سکتا ہے ؟ جوا ب۔ قربا نی دینے والا لوجہ اللہ قر با نی کا جا نو ر ذبح کر تا ہے اس کے کسی حصہ کی خرید و فرو خت جا ئز نہیں ہے ہا ں اگر اس کی کھال وغیرہ غربا اور مسا کین کو دے دی جا ئے تو وہ اسے فرو خت کر سکتے ہیں۔ اس جا نو ر کے نا خن اتا ر کر پھینک دئیے جا تے ہیں اگر انہیں دوا میں استعما ل کیا جا ئے تو شرعی طور پر اس میں کوئی قبا حت نہیں ہے، بہتر ہے کہ یہ دوا فی سبیل اللہ مفت دی جا ئے چونکہ اس میں دیگر ادویا ت بھی شامل کی جا تی ہیں ان کا حساب لگا کر منا سب نفع سے فروخت کردی جا ئے تو اس میں بھی کو ئی حر ج والی با ت نہیں ہے قر با نی کر نے والے کے علا وہ اگر کو ئی دوسرا شخص ان نا خنو ں کو بطو ر دوا استعما ل کر تا ہے تو اسے کھلی اجاز ت ہے کہ اس دوا کی خر ید و فر و خت کرلے، البتہ قر با نی والا اس سے احتیا ط کر ے تقو یٰ اور پرہیز گا ری کا تقا ضا یہی ہے ، نیز حدیث میں ہے کہ جہا ں شک پڑ جا ئے اسے چھو ڑ دینے میں عا فیت ہے، چونکہ اس میں دوا بنا نے کی محنت اور دیگر ادویا ت بھی شا مل ہیں، لہذا احتیا ط کے دا ئرہ میں رہتے ہو ئے اسے فرو خت کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم ) سوال۔ملتا ن سے عبد الطیف سوال کر تے ہیں کہ چر مہا ئے قر با نی کا صحیح مصرف کیا ہے کیا انہیں جہا د فنڈ میں دیا جا سکتا ہے ؟ جواب۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے مو قع پرسو او نٹ ذبح کیاتھا اور ان کی کھا لوں کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ ان کی جلیں اور کھا لیں صدقہ کردی جا ئیں۔(صحیح بخاری :کتاب الحج ) اس کی مز ید وضا حت صحیح مسلم میں با یں الفا ظ وارد ہے : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ قر با نی کے اونٹوں کی دیکھ بھا ل کر یں، نیز ان کا گو شت کھا لیں اور جلیں مسا کین میں تقسیم کردیں اور قصاب کو بطور اجرت ان کھا لو ں سے کچھ نہ دیں ۔(صحیح مسلم :1/424) اس سے معلو م ہو تا ہے کہ کھا لو ں کا بہترین مصر ف اپنے علا قے کے غربا اور مسا کین ہیں دیگر مصا رف زکوۃ کے بجا ئے انہی کو دی جا ئیں، دینی مدارس کے طلبا پر بھی خرچ کی جا سکتی ہیں۔مقا می لا ئبریریوں کی توسیع یا مسا جد کی تعمیر و ترقی میں انہیں خرچ نہیں کر نا چا ہیے اور نہ ہی جہا د فنڈ میں دینی چا ہئیں ۔کیو ں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کھالو ں اور فطر ا نہ وغیرہ کو جہا د فنڈ میں نہیں دیا جا تا تھا بلکہ اپنی گرہ سے جہا د فنڈ کو مضبو ط کر نا چا ہیے۔اس مقا م پر یہ وضا حت بھی ضروری ہے کہ مجلہ الدعوہ نے ایک دفعہ میر ے نا م سے ’’قر با نی کے احکا م ایک نظر میں‘‘ شا ئع کیے تھے جس میں لکھا تھا کہ قر با نی کی کھال یا اس کی قیمت فقرا مسا کین، طالبان دین
Flag Counter