Maktaba Wahhabi

196 - 495
سے ناقابل التفا ت ہے۔حا فظ ابن حجر عسقلا نی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’قر با نی کے جا نو ر کا خصی ہو نا کو ئی عیب نہیں ہے بلکہ خصی ہو نے سے گو شت کی عمدہ گی میں اضا فہ ہوجا تا ہے ۔‘‘(فتح البا ری:7/10) سوال ۔حبیب اللہ بذریعہ ای میل سوال کر تے ہیں کہ اگر قر با نی کا جا نور خر یدنے کے بعد اس میں عیب پڑجا ئے تو اسے بھی ذبح کیا جا سکتا ہے ؟ یا اس کی جگہ کو ئی صحیح و سا لم جا نو ر خرید نا ہو گا ؟ جو اب ۔ احادیث میں قر با نی کے جا نور کے متعلق صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کا یہ معمو ل بیا ن ہوا ہے کہ اسے ذبح کر تے وقت ان عیو ب کو دیکھتے تھے جو قر با نی کے لیے رکا وٹ کا با عث ہیں، اس سے معلو م ہوتا ہے کہ اگر خرید نے کے بعد ذبح کر نے سے پہلے قربا نی کے جا نو ر میں کو ئی عیب پڑ جا ئے تو وہ قر با نی کے قابل نہیں رہتا ، اسے تبدیل کر نا چا ہیے، یہ ایسے ہے جیسے قر با نی کے جا نو ر کو قبل از وقت ذبح کر دیا جائے، چنا نچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بردہ بن نیار رضی اللہ عنہ نے عید سے پہلے قر با نی کا جا نور ذبح کر دیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ یہ عا م گوشت ہے، اس کے بد لے کو ئی اور جا نو ر ذبح کیا جا ئے ۔(صحیح بخا ری : الاضا حی : 5560) خریدنے کے بعد عیب پڑنے کی صورت میں بعض علمائے کرام اس جا نور کو قر با نی کے طور پر ذبح کر دینے کا فتو ی دیتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث پیش کر تے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے قر با نی کے لیے ایک دنبہ خریدا لیکن ذبح سے پہلے اس کی چکی ایک بھیڑ یا لے گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہی جا نو ر ذبح کر نے کی اجا ز ت فر ما ئی ۔(مسند امام احمد :3/78) لیکن ایک تویہ حد یث اس قا بل نہیں کہ اسے بطو ر حجت پیش کیا جا ئے کیو ں کہ اس کی سند میں ایک راوی جابر جعفی ہے جو محدثین کے ہاں انتہا ئی مجروح اور ناقا بل اعتبا ر ہے، نیز اس کی سند میں ایک دوسرا راوی محمد بن قر ظہ جو جا بر جعفی کا استاد ہے، کتب جرح میں اسے مجہو ل قرار دیا گیا ہے۔(خلا صۃ تہذیب الکمال :ص 356) دوسری با ت یہ ہے کہ دبنے کی چکی کا نہ ہو نا کو ئی ایسا عیب نہیں ہے جو قر با نی کے لیے رکا وٹ کا با عث ہو، یہ ایسے ہے کہ اگر قر با نی کے جا نو ر کا دا نت ٹو ٹ جا ئے تو اسے قر با نی کے طو ر ذبح کیا جا سکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قر با نی کا جا نو ر نا مز د کر نے کے بعد اگر اس میں عیب پڑ جا ئے تو اس کے بد لے دوسرا جانور ذبح کرنا چا ہیے۔اگر قر با نی کی استطا عت نہیں تو اللہ تعا لیٰ کسی انسا ن کو اس کی طا قت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ہیں ۔(واللہ اعلم با لصواب ) سوال ۔ صادق آبا د سے عبد الحمید لکھتے ہیں کہ کیا عورت قر با نی ذبح کر سکتی ہے، اس کے متعلق کو ئی حدیث ہو تو ذکر کر یں ۔ جو اب ۔عورت کے متعلق قر با نی ذبح کر نے کے با ر ے میں کو ئی حکم امتناعی کتب حدیث میں مروی نہیں ہے، نہ ہی کو ئی کرا ہت منقو ل ہے، بلکہ امام بخا ری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جو از ثا بت کیا ہے، حدیث میں ہے کہ حضرت کعب بن ما لک رضی اللہ عنہ کی ایک لو نڈی بکریا ں چرا یا کر تی تھی، ہنگا می طور پر اس نے ایک تیز پتھر سے بکر ی ذبح کر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذبیحہ کو استعما ل کر نے کی اجا زت دی ۔ (صحیح بخا ری :حدیث نمبر5505) حضرت ابو مو سیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو قر با نی ذبح کر نے کا حکم دیا کر تے تھے ۔(صحیح بخا ری ) لہذا عورت کے لیے قر با نی کا جا نو ر ذبح کر نے پر کوئی پا بندی نہیں یہ مسئلہ لو گو ں کے ہا ں غلط مشہو ر ہو چکا ہے ۔
Flag Counter