Maktaba Wahhabi

195 - 495
"آیت کریمہ کی تفسیر میں جا نوروں کو خصی کرنے کی با ت کسی صحیح یا ضعیف روایت سے مر فو عاً ثا بت نہیں ہے جہا ں تک سلف صا لحین کے اقوا ل کا تعلق ہے تو اس کے متعلق خو د ابن عبا س رضی اللہ عنہ،حسن بصری اور سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہما سے مروی ہے کہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے، یعنی وہ حرام کو حلال اور حلا ل کو حرام ٹھہرا ئیں گے جیسا کہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے جب سلف صا لحین سے مختلف تفا سیر منقو ل ہیں تو اس کی تفسیر میں جا نو روں کو خصی کر نے کی با ت حتمی طو ر پر نہیں کہی جا سکتی چو نکہ اس کی تفسیر میں کو ئی مر فو ع حدیث مو جود نہیں لہذا: لاتبديل لخلق اللّٰه’’اللہ کے دین میں کو ئی تبدیلی نہیں ۔‘‘کے پیش نظر آیت مذکو رہ میں خلق اللہ سے دین اللہ ہی مرا د ہے۔ مسند البز ار کے حوالہ سے جو روایت بیا ن ہوئی ہے تو اس سے مراد حلال جا نو روں کا خصی کر نا مراد نہیں ہے کیو ں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمل سے ایک حرا م کی تا ئید کر یں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مرو ی ہے کہ ان کے پا س ایک خصی غلام فرو خت کے لیے لایا گیا تو انہو ں نے فرمایا کہ میں خصی کر نے کی تائید و حما یت نہیں کر تا۔(شرح معا نی الآثار :2/383) گو یا ٍ انہو ں نے اس خریداری کو اس عمل کی تا ئید خیا ل کیا، لہذا اگر حلال جا نو رو ں کا خصی کر نا بھی نا جا ئز ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خصی شدہ جا نو رو ں کی قر با نی ہر گز پسند نہ کر تے، لہذا خصی کی مما نعت اور خصی جا نو ر کی قر با نی کر نے میں یہی تطبیق ہے کہ جن جا نو ر وں کا گوشت کھا یا جا تا ہے ان کا خصی کر نا درست ہے مگر جن جا نو رو ں کا گوشت کھا نا حرا م ہے ان کا خصی کر نا بھی درست نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مرو ی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثا بت نہیں ہے بلکہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قو ل ہے۔ جب ہم علمائے متقدمین کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے بیشتر حلا ل جا نو روں کے خصی کرنے کے قا ئل اور فا عل ہیں۔حضرت طا ؤ س رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اونٹ کو خصی کرا یا تھا، نیز حضرت عطا رحمۃ اللہ علیہ کا قو ل ہے کہ اگر نر جا نو ر کے کا ٹنے کا اندیشہ ہو تو اسے خصی کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(شرح معانی الآثار :2/383) امام نو وی رحمۃ اللہ علیہ نے شر ح مسلم اور حا فظ ابن حجر نے رحمۃ اللہ علیہ نے شر ح فتح الباری میں اسی موقف کو اختیا ر کیا ہے، مختصر یہ ہے کہ قر با نی کے لیے خصی جا نور کو ذبح کیا جا سکتا ہے اور جن روا یا ت میں امتنا ع ہے وہ ان جا نوروں کے متعلق ہے جن کا گو شت نہیں کھا یا جا تا ۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ فیصل آبا د سے محمد شفیع دریا فت کر تے ہیں کہ خصی جا نو ر کی قربانی کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے ؟ بعض لو گو ں کا خیا ل ہے کہ یہ ایک عیب ہے اور قر با نی کا جا نو ر بے عیب ہو نا چا ہیے وضاحت فر ما ئیں ۔ جوا ب ۔قر با نی کے ذر یعے چو نکہ اللہ کا قر ب حا صل کیا جا تا ہے، اس لیے قر با نی کا جا نور بے عیب ہونا چاہیے لیکن قر با نی کے لیے جا نور کا خصی ہو نا عیب نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قر با نی کے لیے بعض اوقا ت خصی جا نور کا انتخا ب کر تے تھے، حدیث میں ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے مینڈھوں کی قر با نی دیتے جو گو شت سے بھر پور اور خصی ہو تے تھے ۔(مسند امام احمد 5/196) اگر چہ بعض اہل علم نے خصی جا نور کی قر با نی کو مکروہ لکھا ہے لیکن یہ موقف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسو ۂ حسنہ کے خلا ف ہونے کی وجہ
Flag Counter