ان بے اصل روا یت کو بیا ن کر نے سے ہما را مقصد یہ نہیں کہ قر با نی کے جا نو ر کو مو ٹا تا زہ نہ کیا جا ئے بلکہ مقصود یہ ہے کہ واعظین حضرات ایسی من گھڑت احا دیث بیا ن کر نے سے گریز کر یں کیوں کہ بے اصل اور خودسا ختہ احا دیث سے کسی قسم کا استحبا ب ثا بت نہیں ہو تا بلکہ ان کے بیا ن کر نے پر سخت و عید آئی ہے قر با نی کے فضا ئل میں بے شمار صحیح احا دیث کتب حدیث میں مرو ی ہیں انہیں بیا ن کر نا چا ہیے ۔ سوال ۔ اسلا م آبا د سے راجہ فضل داد خا ن لکھتے ہیں کہ قر با نی ذوالحجہ کے کتنے دنو ں تک کی جا سکتی ہے کیا تیرہ ذو الحجہ کو قر با نی کر نا قرآن و حدیث سے ثا بت ہے ؟ جو اب۔ اللہ تعا لیٰ نے حج کے دینی اور دنیوی فو ائد بیا ن کر تے ہو ئے فرمایا ہے :" تا کہ وہ فا ئدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقررہ دنو ں میں ان جا نوروں پر اللہ کا نا م لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں ۔"(22/لحج : 28) اس مقا م پر جا نوروں پر اللہ کا نا م لینے سے مراد انہیں اس کے نا م پر ذبح کر نا ہے۔ ایا م معلو ما ت (چند مقررہ دنوں ) سے مرا د کو ن سے دن ہیں اس میں اختلا ف ہے با لعموم اس کے متعلق دو آراء ہیں : (1)اس سے مراد یو م النحر یعنی 10ذوالحجہ اور اس کے بعد تین دن ہیں۔اس کی تا ئید میں ابن عبا س ،ابن عمر، ابرا ہیم نخعی ، حسن بصری اور عطا رحمۃ اللہ علیہم کے اقوا ل پیش کیے جا تے ہیں۔امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ایک قو ل نقل کیا جا تا ہے ۔ (2)اس سے مراد صرف تین دن ہیں یعنی یوم النحر اور دو دن اس کے بعد، اس کی تا ئید میں حضرت عمر ، حضرت علی ،حضرت انس بن مالک ،حضرت ابو ہریرہ اور سعید بن مسیب رضی اللہ عنہم کے اقوال بیا ن ہوئے ہیں، اس سلسلہ میں کچھ شا ذ اقوال بھی ہیں : مثلاً کسی نے یکم محر م تک ایا م قر با نی کو دراز کیا ہے اور کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے اور کسی نے یو م النحر کے بعد صرف ایک دن قر با نی کا تسلیم کیا ہے، بعض نے ذوالحجہ کے پہلے دس دن مرا د لیے ہیں، بہر حا ل یہ شا ذ اقوال ہیں جن کے متعلق کو ئی مضبو ط دلا ئل نہیں ہیں۔ہما رے نزدیک پہلا قو ل یعنی یوم النحر اور ایا م التشریق یعنی 10۔11۔12۔13۔ دن تک قر با نی ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خو د دسویں ذوالحجہ کو قر با نی فر ما ئی ہے، البتہ جوا ز کی حد تک 11۔12۔13۔ دن برابر ہیں، تیرہ تا ر یخ کے لیے کو ئی الگ حکم نہیں دیا ہے، جب یہ آخری دن احکام حج میں دوسر ے ایا م کے برابر ہے تو قر با نی کے لیے بلا وجہ اسے الگ کیو ں کیا جا ئے، چنا نچہ اس موقف کی تا ئید میں ایک حدیث بھی مر وی ہے۔حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :’’منیٰ میں ہر جگہ قر با نی کی جا سکتی ہے اور ایا م تشر یق تمام ذبح کے دن ہیں ۔‘‘(مسند امام احمد،4/82) اس روایت میں اگر چہ انقطا ع ہے تا ہم مجمو ع طرق سے ثا بت ہوتا ہے کہ اس حدیث کی کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہے۔ ائمہ حدیث میں اکثر کا رجحان اسی طرف ہے، تفصیل کے لیے نیل الاوطار ، زادالمعاد کا مطا لعہ مفید رہے گا ۔ ضروری نو ٹ :قربا نی کےلیے افضل دن یو م النحر دسویں ذوالحجہ ہے، بلاوجہ اس دن سے تا خیر نہیں کر نی چاہیے، آخری دن قر با نی کر نا مردہ سنت کو زندہ کر نا نہیں جیسا کہ ہما رے ہا ں اکثر یہ ہو تا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کو ئی شخص بلاوجہ نماز آخر وقت میں ادا کر ے ایسا کر نے سے نماز تو ادا ہو جا ئے گی شا ن اور فضیلت سے محروم ہو گی۔ |