Maktaba Wahhabi

174 - 495
عبد الرحمن مبا رکپو ری، علامہ سیو طی کی یہ ’’بنیا د‘‘ با یں الفا ظ منہدم کر تے ہیں: یہ ضروری نہیں کہ ضعیف احا دیث کے ہر مجمو عہ کی کو ئی اصل بھی ہو ۔ (تحفۃ الاحوذی:2/126) علامہ مبا رک پوری نے با لکل صحیح فر ما یا ہے، کیو نکہ ضعیف احا دیث کی گھٹیا اور بد تر ین قسم مو ضو ع روایت کو کسی مسئلہ کی بنیا د نہیں قرار دیا جا سکتا، جمہور محدثین تو مطلق طو ر پر ضعیف روا یت کو قا بل عمل نہیں سمجھتے، البتہ بعض اہل علم کا اصرار ہے کہ فضا ئل اعما ل میں (اعما ل میں نہیں ) ضعیف حدیث قا بل حجت ہے، وہ بھی مشر وط طور پر اور وہ شر ا ئط حسب ذیل ہیں : روایت میں شدید قسم کا ضعف نہ ہو، یعنی اس کے بیا ن کر نے والا کو ئی راوی کذا ب یا جھو ٹ بولنے کے متعلق تہمت زدہ ہو جبکہ زیر بحث روا یا ت خو د سا ختہ ہیں۔ نفس مسئلہ کسی صحیح حدیث سے ثا بت ہو، البتہ اس کی فضیلت بیا ن کر نے میں ضعیف روا یت کا سہا را لیا جاسکتا ہے، جبکہ زیر بحث مسئلہ سر ے سے ثابت ہی نہیں ہے۔ روا یت میں بیان شدہ حکم کسی عقیدہ یا عبا دت سے متعلق نہ ہو ،نیز اس روایت کو بیا ن کر تے وقت اس کی نسبت برا ہ را ست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ کی جا ئے بلکہ "روی"جیسے الفا ظ سے بیا ن کی جائے ۔ مذکورہ با لا شر ائط میں سے کو ئی شر ط بھی ان روایا ت میں نہیں پا ئی جا تی بلکہ ان روایا ت سے معلو م ہوتا ہے کہ قبر ستا ن میں قرآن خو انی ہو سکتی ہے، حا لا نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے متعلق ایک وا ضح فرمان ہے کہ اپنے گھروں کو قبرستا ن نہ بنا ؤ (بلکہ ان میں قرآن کی تلا وت کر تے رہا کرو )کیو نکہ جس گھر میں سو رۃ بقرۃ کی تلا وت ہو گی وہا ں شیطا ن بھا گ جا تا ہے ۔ (صحیح مسلم :کتا ب الصلو ۃ ) محدثین کرا م نے قبر ستا ن میں قرآن پا ک کی تلا وت نہ کر نے پر اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے، جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث کو قبر ستا ن میں نماز نہ پڑھنے کے لئے دلیل بنا یا گیا ہے، گھرو ں میں نماز پڑ ھا کرو انہیں قبر ستا ن نہ بنا ؤ ۔(صحیح مسلم : کتا ب الصلو ۃ ) مروجہ قرآن خوا نی اور ایصا ل ثوا ب کے قائلین کی کل کا ئنا ت یہی ہے جو ہم نے بیا ن کر دی ہے، اب قارئین کرا م خو د فیصلہ کر یں اس طرح کے "سہا رو ں " پر کسی شر عی حکم کی بنیا د رکھی جا سکتی ہے ؟ بعض اہل علم نے عقل و قیاس اور زور بیا ن سے اس مسئلہ کو ثا بت کر نے کی کوشش کی ہے، چنانچہ مو لا نا مو دودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آدمی جس طرح مزدوری کر کے ما لک سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی اجرت میر ی بجائے فلا ں شخص کو دے دی جا ئے، اس طرح وہ کو ئی نیک عمل کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کر سکتا ہے کہ اس کا اجر میری طرف سے فلا ں شخص کو عطا کر دیا جا ئے، اس میں بعض اقسا م کی نیکیوں کو مستثنٰی کرنے اور بعض اقسا م کی نیکیوں تک اسے محدود رکھنے کی کو ئی معقول وجہ نہیں ہے۔ (تفہیم القرآن: 5/216) حا لا نکہ اس طرح شرعی مسائل عقل و قیا س سے نہیں بلکہ صریح اور واضح نصوص سے ثا بت ہو تے ہیں، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اس عقلی مفرو ضے کا خو ب جوا ب دیا ہے، چنا نچہ سور ۃ نمبر53سورۃنجم آیت نمبر 39کی تفسیر میں لکھتے ہیں : انسا ن کے لیے کچھ نہیں مگروہ جس کی اس نے سعی کی ہے، اس آیت سے امام شافعی اور اس کے متبعین نے استنباط کیا ہے کہ قرآن مجید پڑھنے کا
Flag Counter