ان احا دیث سے معلو م ہوتا ہے کہ میت کو کسی خاص حقیقی ضرورت کے پیش نظر قبر سے نکالا جا سکتا ہے اور کسی دوسری جگہ دفن کیا جا سکتا ہے لیکن اس با ت کا خا ص خیا ل رکھا جا ئے کہ کو ئی غر ض فاسد اس سے وابستہ نہ ہو، جیسا کہ بے رو نق جگہ پر اس کا مزا ر بنانا مقصود ہو یا اسے پختہ بنانا پیش نظر ہو، اگر ایسی با ت ہے تو قبر اکھا ڑنا شر عاً جا ئز نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں انہی شرا ئط کے سا تھ میت کو قبر سے نکال کر دوسری جگہ دفن کیا جا سکتا ہے اور ایسا کر نے میں شرعاً کو ئی قبا حت نہیں ہے ۔ سوال ۔حشمت علی تحصیل جہا نیاں سے سوال کر تے ہیں کہ اہل حدیث حضرات تعز یت کے لیے ہا تھ اٹھا کر دعا کیو ں نہیں کر تے جبکہ مسلم شریف میں تعز یت کی دعا مرو ی ہے جو اللهم اغفرلابي سلمةسے شروع ہو تی ہے ،نیز بتا ئیں کہ تعزیت کے لیے کتنے دنو ں تک بیٹھا جا سکتا ہے ؟تیسرے دن رشتہ دار اکٹھے ہو تے ہیں، اب اہل حدیث علماء بھی لواحقین کے بلا نے پر تیسرے دن تقریر کر دیتے ہیں، کتا ب و سنت کی روشنی میں شر عی حیثیت وا ضح کر یں ۔ جواب ۔ تعز یت میں دو چیز یں ہو تی ہیں،ایک میت کے لیے اخرو ی کامیابی کی دعا کر نا اور اہل میت کو تسلی دینا اور صبرو تحمل کی تلقین کر نا۔ الحمد اللہ اہل حدیث ان دو نو ں چیز و ں کی پا بند ی کر تے ہیں لیکن اہل میت کے گھر جا کر مخصو ص اندا ز اختیا ر کر کے ہا تھ اٹھا کر دعا کر نے کا ثبو ت کتا ب و سنت سے نہیں ملتا ، اس لیے اہل حدیث اس رسم پر عمل نہیں کر تے ۔ سوال میں جس دعا کا حوا لہ دیا گیا ہے اس پر علا مہ نو و ی رحمۃ اللہ علیہ نے با یں الفا ظ با ب قا ئم کیا ہے: جب مو ت وا قع ہو جا ئے تو میت کی آنکھیں بند کر نا اور اس کے لیے دعا کر نا ۔ درا صل جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فو ت ہو ئے تو ان کی آنکھیں کھلی تھیں آپ نے انہیں بند فر ما یا اور ان کے لیے دعا مغفرت کی۔ یہ کفن دفن سے پہلے کا معا ملہ ہے، نیز اس میں ہا تھ اٹھا نےکا ذکر نہیں ہے، میت پر تین دن کے لیے سو گ کر سکتے ہیں، صرف بیو ی کو اپنے خا و ند کی و فا ت پر چا ر ما ہ دس دن تک سو گ کر نے کی اجازت ہے لیکن سو گ کے ایام میں در یا ں بچھا کر بیٹھ رہنا اور آنے والوں کا مخصوص اندا ز سے تعز یت کے لیے فا تحہ خو انی کر نا قرآن و حدیث سے ثا بت نہیں ہے، تعز یت کے لیے تین دن کی تحدید بھی بدعت ہے جبکہ انسا ن کو جب بھی مو قع ملے اہل بیت سے تعز یت کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر طیا ر رضی اللہ عنہ کے اہل خا نہ سے تین دن کے بعد تعز یت فر ما ئی تھی۔(مسند امام احمد :حد یث نمبر 1755)) حضرت جر یر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ ہم میت کے دفن کر نے کے بعد اہل میت کے ہاں اجتما ع اور ان کے گھر کھا نا پکا نے کو نو حہ کی ایک قسم شمار کر تے تھے ۔(مسند امام احمد :ج2ص204) اہل میت کے لیے کھا نے کا اہتمام دیگر رشتہ دارو ں یا پڑ و سیو ں کو کر نا چا ہیے۔ بہر حا ل اہل میت کے ہا ں اجتماع کتا ب وسنت سے متصا د م ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (المجمو ع :ج5ص306، زادالمعا د ج1ص304) دین اسلا م چو نکہ ایک مکمل ضا بطہ حیا ت ہے جس میں تر میم و اضا فہ کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے، اس لیے میت کے مر نے کے تین چا ر دن بعد مسجد یا گھر میں اکٹھے ہو نا ،تقر یر کر نا ، پھر میت کے لیے اجتما عی دعا کر نا سب روا جی چیز یں ہیں جس کا شر یعت سے کو ئی تعلق |