محدثین کرام نے اپنی کتب حدیث میں ہنگامی حالات کے پیش نظر پانچوں نمازوں میں قنوت نازلہ کا اہتمام کرنے کےلئے باقاعدہ باب قائم کئے ہیں۔چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب یوں قائم کیاہے۔’’باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات‘‘اس قنوت نازلہ کو رکوع کے بعد باآواز بلند کرنا چاہیے اور مقتدی حضرات کا آمین کہنا بھی احادیث سےثابت ہے، جیسا کہ مسند اامام احمد، ابوداؤد اور مستدرک حاکم میں اس کی وضاحت موجود ہے، احادیث میں قنوت نازلہ بایں الفاظ میں منقول ہے: ''اللهم اغفرلنا وللمومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات والف بين قلوبهم واصلح ذات بينهم وانصرهم علي عدوك وعدوهم اللهم العن الكفرة الذين يصدون عن سبيلك ويكذبون رسلك ويقاتلون اولياءك اللهم خالف بين كلمتهم وزلزل اقدامهم وانزل بهم باسك الذي لا ترده عن القوم المجرمين اللهم منزل الكتاب سريع الحساب ومجري السحاب اللهم اهزم الاحزاب وزلزلهم اللهم انج المستضعفين من المومنين والمومنات والمسلمين والمسلمات اللهم اشدد وطاتك علي الذين كفروا واجعلها عليهم سنين كسني يوسف والق في قلوبهم الرعب وارسل عليهم رجزك وعذابك '' اس کے علاوہ ہردعا پڑھی جاسکتی ہے۔جس کاہنگامی حالات سے تعلق ہے۔لادین حملہ آور بھارت امریکہ حکومت کا نام بھی لیا جاسکتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ مضر رعل ذکوان کانام لے کر ان کےلئے بد دعافرمائی تھی۔پھر ان سے نبرد آزماہونے والے مجاہدین کانام لے کر ان کی فتح ونصرت کے لئے دعا کی جاسکتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیاش بن ربیعہ، سلمہ بن ہشام اور ولید بن ولید کانام لے کر ان کے لئے دعائیں فرمائیں تھی۔(صحیح بخاری) ہنگامی حالات سے غیر متعلق ادعیہ کا قنوت نازلہ میں پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا ،اسی طرح ائمہ مساجد کو چاہیے کہ وہ مقتدی حضرات کا خیال رکھیں ،بے جاطوالت وتکرار سے اجتناب کریں۔البتہ خشوع اور خضوع چیزے دیگر است اسے بہرحال برقرار رہنا چاہیے، جب بھی ہنگامی حالات ختم ہوجائیں تو قنوت نازلہ کوترک کردینا بھی مسنون ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام سے ان ناتواں اور کمزور مسلمانوں کی نجات کے لئے دعا فرماتے تھے۔جو کفار کی قید میں صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔پھر آپ نے یہ سلسلہ موقوف کردیا تو عرض کیا گیا کہ اب آپ وہ دعائیں کیوں نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ کفار کی قید سے رہائی پاکر مدینہ آگئے ہیں۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم) سوال۔اگر نماز کی چار رکعت پڑھنا ہوں تو کیا پہلے تشہد میں درود شریف پڑھنا ضروری ہے ؟(خورشیدعالم جڑانوالہ خریداری نمبر 5687) جواب۔اس سلسلہ میں ہمارے ہاں افراط وتفریط اور انتہا پسندی ہے ،کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ پہلے تشہد میں اگر درود پڑھ لیا جائے تو اس سے نماز میں نقص آجاتا ہے۔اور اس کی تلافی سجدہ سہوسے ہوسکے گی۔جبکہ دوسری طرف کچھ اہل علم کا اصرار ہے کہ تشہد اول میں بھی دوسرے تشہد کی طرح درود پڑھنا ضروری ہے، اعتدال یہ ہے کہ پہلے تشہد میں درود پڑھا جاسکتاہے جیسا کہ صدیقہ کائنات |