اس کے علاوہ کسی موقع پر یہ سورت ملانے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ بھی اس صورت میں ہے جب اکیلا نماز ادا کررہا ہو۔اگر امام کے پیچھے ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں:(الف) سری ۔(ب) جہری ۔یعنی جن رکعات میں امام باآواز بلند قراءت کرتا ہے ان میں مقتدی کو صرف سورت فاتحہ پڑھنا چاہیے۔امام کی باقی قراءت خاموشی سے سنی جائے اور جن رکعات میں امام آہستہ قراءت کرتا ہے ان میں مقتدی مذکورہ بالاقاعدہ کے مطابق پہلی دو رکعات میں سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی بھی دوسری سورت ملا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر رکعات میں صرف فاتحہ پر اکتفا کیا جائے۔اکیلا آدمی بھی صرف فاتحہ پر اکتفا کرتے ہوئے پوری نماز ادا کرسکتا ہے۔بعض حالات میں اس کی گنجائش ہے جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز نہ پڑھنے والے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا کہ تو نماز میں کیا کرتا ہے تو اس نے جواب دیا تھا کہ میں فاتحہ پڑھتا ہوں، اللہ سے جنت مانگتا ہوں اور جہنم سے محفوظ رہنے کا سوال کرتا ہوں۔تو آپ نے اس کی تصویب فرمائی تھی۔(صحیح ابن خزیمہ :کتاب الصلوۃ) اس طرح پہلی دو رکعات کے علاوہ تیسری اور چوتھی رکعات میں سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت بھی ملائی جاسکتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری دو رکعت میں اندازاً پندرہ آیات پڑھتے تھے۔‘‘(مسند امام احمد) اس سے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ کے علاوہ مزید قراءت بھی کی جاسکتی ہے کیوں کہ سورۃ فاتحہ کی تو سات آیات ہیں۔(واللہ اعلم) سوال۔فتح پور سے ابوسیف مکی خریداری نمبر 2935 لکھتے ہیں کہ اگر امام جہری نمازوں میں کسی بڑی سورت سے چند آیات کی قراءت کرتا ہے توکیا اسے مضمون اورترجمہ کا خیال رکھنا چاہیے یانہیں ؟بعض ا وقات امام کسی آیت پر قراءت ختم کردیتا ہے حالانکہ اس آیت کا تعلق آیندہ آیات سے بھی ہوتا ہے۔ جواب۔نماز میں قراءت کےمتعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہی تھا کہ آپ ہر رکعت میں مکمل سورت تلاوت کرتے تھے تاہم سورت کا کچھ حصہ یا بعض آیات بھی کتب حدیث میں مروی ہے،چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہےکہ دو سورتیں ایک رکعت میں پڑھنا، سورتوں کی آخری آیات یا ابتدائی آیات یا سورتوں کو تقدیم وتاخیر سے پڑھنے کا بیان ۔(کتاب الاذان: باب نمبر 106) پھر آپ نے اس عنوان کو ثابت کرنے کےلئے کچھ آثار و روایات پیش کی ہیں جو اس مسئلہ کے اثبات کے لئے کافی ہیں، اس لئے نماز میں جہاں سے چاہیں قرآن پڑھ سکتے ہیں۔اس کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے۔تاہم بہتر ہے کہ اختتام کے وقت مضمون کا خیال رکھا جائے، قرائے کرام اور اہل علم حضرات کے نزدیک قراءت کا مسنون اور پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ ہر آیت کے اختتام پر وقف کیا جائے اور اسے الگ الگ پڑھا جائے۔فصل و وصل کی اصطلاحات خیر القرون سے بعد کی پیدا وار ہیں۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قراءت کرتے تو ہر آیت کو علیحدہ علیحدہ پڑھتے۔(مسندامام احمد ج6 ص 203) بلکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کے وقت تمام حروف وکلمات واضح اور علیحدہ علیحدہ ہوتے تھے۔(ترمذی: فضائل قرآن 2923) |