Maktaba Wahhabi

110 - 495
( ہمارے ہاں عام طور پر سورۃ غاشیہ کے اختتام پراللهم حاسبني حساباً يسيرا'' کے الفاظ بطور جواب امام اور مقتدی حضرات کی طرف سے با آواز بلند ادا کئے جاتے ہیں،حالانکہ کسی صحیح حدیث میں ایسا نہیں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الغاشیہ کے اختتام پر یہ کلمات کہے ہوں۔البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیان کتب حدیث میں بیان موجود ہے کہ آپ نے ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کسی نماز میں یہ کہتے ہوئے سنا:'' اللهم حاسبني حساباً يسيرا'' (مسند امام احمد :6/48) لیکن اس دعا کا تعلق سورۃ غاشیہ کے اختتام سے نہیں ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات بطور جواب کہے ہوں بلکہ آپ ان کلمات کو بطور دعا پڑھتے تھے۔علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:'' کہ اس دعا کو تشہد میں سلام سے پہلے پڑھا جاسکتا ہے۔'' انہوں نے اس دعا کو ان دعاؤں میں ذکر کیا ہےجو بوقت تشہد سلام سے پہلے پڑھی جاتی ہیں۔(صفۃ صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم :201 الدعا قبل السلام وانواعہ) خلاصہ کلام حسب ذیل ہے: ( (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) کی تلاوت کے وقت صرف امام کو سبحان ربي الاعليٰ کہنے کی اجازت ہے۔کیونکہ یہ عمل متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت ہے۔یعنی وہ جب اس کی تلاوت کرتے تو جواب کے طور پر سبحان ربي الاعليٰ کہتے۔ ( باقی جوابات پر مشتمل روایات محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں جن حضرات کے ہاں ضعیف روایت پر عمل کرنے کی گنجائش ہے وہ اگر انہیں عمل میں لانا چاہیں تو یہ قراءت کے وقت تو ہوسکتا ہے جبکہ وہ خودتلاوت کررہےہوں، مقتدی حضرات کےلئے جواب دینے کاجواز ان روایات سے ثابت نہیں ہوتا۔ ( (فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ) کاجواب خارج از نماز سننے کے لئے دیا جاسکتا ہے کیوں کہ دوران نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلاوت فرمانا اور جنوں کا جواب دینا اس کے لئے ثبوت کی ضرورت ہے جو تلاش بسیار کے باوجود ہمیں نہیں مل سکتا ہے۔سورہ غاشیہ کے اختتام پر '' اللهم حاسبني حساباً يسيرا'''' جیسے کلمات سے جواب دینا تو انتہائی محل نظر ہے۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ کیا نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے بغیر سورۃ فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے؟(فاطمہ بیگم :ناگرہ) جواب۔نماز میں جب سورۃ فاتحہ پڑھی جائے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم آہستہ پڑھنا چاہیے۔خواہ نماز سری ہویا جہری، جن روایات میں نماز کو الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سےشروع کرنے کا ذکر ہے اس سے یہی مراد ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو باآواز بلند نہ پڑھا جائے۔یہ مطلب نہیں ہے کہ سرے سے بسم اللہ ہی نہ پڑھی جائے۔۔چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک باب یوں قائم کیا ہے:''بسم اللہ کو باآواز بلند نہ پڑھنے کی دلیل''اس کے تحت وہ حدیث لائے ہیں:''حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ،وہ بلند آواز سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہیں پڑھتے تھے۔(حدیث نمبر :399) سوال۔پیراں غائب سے محمد اشرف ندیم سوال کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری صورت ملانے کا کیا ضابطہ ہے، سری ، جہری ،انفرادی اور امام کے ساتھ نماز ادا کرتے وقت ان تمام صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے تسلی بخش جواب دیں: جواب۔نماز میں سورت فاتحہ کے بعد دوسری سورت ملانے کے متعلق عام قاعدہ یہ ہے کہ پہلی دو رکعات میں سورت ملانا چاہیے۔
Flag Counter