ہے۔امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: '' یہ روایت صرف اسی سند کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والے اعرابی کا نام مذکورہ نہیں ۔''(جامع ترمذی :حدیث نمبر 3347) مصنف عبدا لرزاق میں یہ روایت اعرابی اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کے بغیر بیان ہوئی ہے لیکن یہ اس لئے ناقابل قبول ہے کہ اس کی سند سے دو راوی ساقط کردیے گئے ہیں۔(مصنف عبدالرزاق :2/452) ( حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی (لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ) پڑھے تو اس کی آخری آیت کی تلاوت کے بعد اسے''بلیٰ''کہنا چاہیے۔(مسند امام احمد :2/249) اس روایت میں بھی وہی سقم ہے جو اس سے پہلے والی میں بیان ہو چکا ہے۔ کیوں کہ یہ ایک ہی روایت ہے جسے ہم مسئلہ کی وضاحت کے پیش نظر الگ الگ بیان کررہے ہیں۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے مکان کی چھت پر نماز پڑھا کرتاتھا۔جب وہ سورۃ قیامۃ کی اس آخری آیت کوتلاوت کرتا تو اس کے بعد''سبحانک بلیٰ'' کہتا ، جب لوگوں نے اس سے پوچھا تو بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کہتے سنا ہے۔(بیہقی :2/310) اول:تو اس روایت میں ایک راوی موسیٰ بن ابی عائشہ ہے جس کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے کسی صحابی سے یہ حدیث سنی ہو جس کا ذکر مذکورہ روایت میں ہے۔ اور اس روایت کو موسیٰ بن ابی عائشہ کے علاوہ دوسرا کوئی بیان کرنے والا بھی نہیں ہے۔ ثانیاً : یہ صرف قاری کےلئے ہے۔ مقتدی حضرات کےلئے جواب دینے کی دلیل یہ واقعہ نہیں بن سکتا۔ ( حدیث میں ہے کہ تم میں سے اگر کوئی سورۃ مرسلات کی تلاوت کرے تو(فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ) پڑھنے کے بعد امنا باللّٰه کہے۔ (بیہقی :2/310) اس حد یث میں وہی سقم ہے جس کا تفصیلی ذکر پہلے ہوچکا ہے کیوں کہ یہ بھی پہلی روایت کا ایک حصہ ہے۔ ( حدیث میں ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے سامنے سورہ رحمٰن تلاوت فرمائی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمہ تن گوش ہوکر سنتے رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں نے یہ سورت جنوں کے سامنے پڑھی تھی تو وہ جواب دینے میں تم سے بڑھ کر تھے۔میں جب بھی (فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ)''پڑھتا تو وہ جواب میں '' لا بشي ء من نعمك ربنا نكذب فلك الحمد کہتے تھے۔(سنن ترمذی حدیث نمبر :3291) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نےامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔(جامع ترمذی :کتاب التفسیر) لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(مشکوۃ تحقیق البانی :1/273) لیکن اس میں یہ صراحت نہیں ہے کہ جنوں کاجواب دینا دوران نماز تھا بلکہ قرائن ایسے ملتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سور ت نماز کے علاوہ کسی اور وقت تلاوت کی تھی کیوں کہ صرف جنوں کی جماعت کرانا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔ |