Maktaba Wahhabi

108 - 495
الاعلی)کہتے۔(سنن ابی داؤد ) یہ تسبیح پر مشتمل آیت پڑھنے کے بعد تسبیح بیان کرنے کا عملی نمونہ ہے، اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''اس حدیث کے بیان کرنے میں حضرت وکیع کی دوسرے طرق سے مخالفت کی گئی ہے ۔اس حدیث کو جب حضرت ابوکیع بن جراح اور حضرت شعبہ بیان کرتے ہیں تو اسے مرفوع کے بجائے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے موقوفاً بیان کرتے ہیں۔'' اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ ر وایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے، اس کے علاوہ حضرت معمر نے بھی حضرت وکیع کی مخالفت کرتے ہوئے اسے موقوف بیان کیا ہے۔(مصنف عبد الرزاق :2/452) لیکن حضرت وکیع بھی چونکہ ثقہ راوی ہیں،اس لئے ان کا مرفوع بیان کرنا ایک اضافہ ہے جسے محدثین کرام کے اصول کے مطابق قبول کیا جانا چاہیے، اس لئے یہ روایت مرفوع ہوگی۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت اسی سند سے بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ حدیث شیخین بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔(مستدرک حاکم :1/267) اما م ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے یونہی برقرار رکھا ہے۔(تلخیص المستدرک) اگر یہ روایت موقوف بھی ہو تو بھی اسے مرفوع کا حکم دیاجائے گا۔کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں۔واضح رہے کہ آیات کا جواب دینے کا یہ عمل صرف قاری، یعنی پڑھنے والے کے لئے ہے،خواہ دوران نماز ہی کیوں نہ ہو، سامع کے لئے نہیں ہے۔چنانچہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس پر عمل ہے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت میں ہے کہ انہوں نے جمعہ کی نما ز میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھا تو (سبحان ربی الاعلی) کہا۔(سنن بیہقی :2/311) اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی وضاحت ہے کہ انہوں نے نماز میں ( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ) کے جواب میں (''سبحان ربی الاعلی) کہا۔(بیہقی :2/311) ان احادیث وآثار کے پیش نظر اگر کوئی نماز میں (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھتا ہے تو اسے جواب میں ''سبحان ربی الاعلی'' کہنا چاہیے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نمونہ ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نمونے کو اپنا یا ہےمگر اسے مقتدیوں کے لئے جواب دینے کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ ( حدیث میں ہے کہ اگر کوئی تم میں سے(وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ) پڑھے اور (أَلَيْسَ اللّٰهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ)''تک پہنچے تو اسے(بليٰ وانا علي ذلك من الشاهدين) کہنا چاہیے۔(مسند امام احمد:2/249) اس روایت کو بھی مقتدی حضرات کے لئے جواب دینے کی دلیل بنایا جاتا ہے لیکن یہ روایت بھی محدثین کرام کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتی کیوں کہ اس میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے والا ایک راوی مجہول ہے جس کے حالات کا کوئی سراغ نہیں ملتا ،محدثین کی بیان کردہ شرائط کے مطابق جس روایت میں ''جہالت''پائی جائے وہ ضعیف اور ناقابل حجت ہوتی
Flag Counter