اسی طرح سلام پھیرتے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے تھے،جیسا کہ گھوڑا اپنی دم کو ہلاتا ہے، تاہم بعد میں اس سے منع کردیا گیا۔ ''نماز کی رکعات پہلے دو دو تھیں، بعد میں ظہر، عصر اور عشاء کی نماز جب حضر میں پڑھی جائے تو اس میں مزید دو رکعات کا اضافہ کردیا گیا، البتہ سفر کی نماز کواپنی حالت پر برقرارر کھا گیا۔''(مسلم کتاب الصلوۃ باب الامر بالسکون فی الصلاۃ ، رقم 968) لیکن رفع الیدین ایک ایسی سنت ثابتہ ہےجس میں کسی وقت کسی صورت میں نسخ ثابت نہیں ہے۔رفع الیدین کے چار مواقع ہیں:تکبیر تحریمہ کے وقت، ر کوع جاتے وقت، رکوع سے سر اٹھاتے وقت اورتیسری رکعت کے لئے اٹھتے وقت، تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر تمام امت کا اجماع ہے۔اور باقی تین مقامات میں رفع الیدین کرنے پر بھی اہل کوفہ کے علاوہ تمام علماء ئے امت کا اتفاق ہے ۔بقول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر اس سنت پرعمل کیا، اس سنت کو عشرہ مبشرہ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بیان کرتے اور اس پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں ،اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سبیل المومنین کی اتباع کے پیش نظر تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ رکوع جاتے، اس سے سر اٹھاتے وقت اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے رفع الیدین کریں ۔اس کے علاوہ دعویٰ نسخ یامنافی سکون کا شوشہ، عدم ودوام کاشاخسانہ ،سنت غیر موکدہ کی تحقیق، غیر فقیہ راویوں کا غیر درایتی نکتہ یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سنت کو ثابت کرنے کےلئے ایک مستقل رسالہ’’جز رفع الیدین ‘‘ لکھا ہے جو استاذی المکرم حضرت شاہ بدیع الدین راشدی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق سے مطبوع ومتداول ہے۔ سوال۔ڈیرہ نواب سے عبدالعلی لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں عام طور پر دوران جماعت مقتدی حضرات بعض آیات کے اختتام پر باآواز بلند ان کا جواب دیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ جواب۔مختلف حضرات کی طرف سے ہمیں یہ سوال موصول ہواہے، مسئلہ کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہم اسے ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ اس کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوران قراءت یہ معمول بیان کرتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح پر مشتمل آیات تلاوت کرتے تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے اور جب کبھی سوال کی آیت سے گزرتے تو سوال کرتے ،اسی طرح جب کوئی تعوذ کی آیات پڑھتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے۔(مسلم کتاب صلوۃ المسافرین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول اگرچہ صلوۃ الیل سے متعلق ہے،تاہم محدثین کرام نے اسے عام رکھا ہے، یعنی جب بھی کوئی ایسی بات کی تلاوت کرے جس میں اللہ کی تسبیح یا پناہ یا سوال کا ذکر ہوتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اس وقت اللہ کی تسبیح کرے، اللہ سے سوال کرے، نیز دینی اور دنیاوی ضرر رساں نقصان اور خسران سے اللہ کی پناہ طلب کرے۔ دوران قراءت یہ ایک عام ہدایت ہے جس کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے، واضح رہے کہ یہ ہدایت صرف قاری یعنی پڑھنے والے کے لئے ہے۔کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع صرف اس معنی میں تمام افراد امت کے لئے عام ہے جب فرد کی حالت بھی وہی ہو جس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام سرانجام دیا ہے۔اس مختصر تمہید کے بعد ہم، جن آیات کا جواب دیاجاتا ہے، اس کی حیثیت بیان کرتے ہیں۔ 1۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) پڑھتے تو (''سبحان ربی |