Maktaba Wahhabi

106 - 495
جواب۔ بشرط صحت سوال واضح ہو کہ رفع الیدین ایک ایسی سنت ہے جس کا ترک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ بھی ثابت نہیں، اس کے متعلق مروی احادیث تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں اور نہ ہی اس سنت کا نسخ ثابت ہے جیسا کہ بعض اہل علم کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے۔ نیز یہ عمل اس معنی میں سنت نہیں کہ اگر اسے اد ا نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اس معنی میں سنت ہےکہ نماز ادا کرنے کا یہی طریقہ ہے۔اور ’صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي‘‘ ( اس طریقہ کے مطابق نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے) كا تقاضا یہ ہے کہ اس کے بغیر نماز نہ پڑھی جائے۔بلکہ اس کے بغیر نماز پڑھنا ادھوری اور نامکمل نماز ہے۔ اس کے علاوہ اس سنت میں اللہ کی عظمت اور کبریائی کا بھی اظہار ہے۔ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کاتقاضا یہی ہے کہ ہر اس ادا کو عمل میں لایا جائے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا ہے۔ اور آپ کی کسی سنت کو مصلحت یا رواداری کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، باقی رہا مسئلہ اطاعت والدین کا تو ا س کی کچھ حدود قیود ہیں اس کے متعلق شریعت کا ایک بنیادی اصول ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی بات کو نہ مانا جائے اور نہ اس پر عمل کیا جائے ،لہذا رفع الیدین کی سنت پر عمل کرنے پر والدین کا اس پر ناراض ہونا برمحل نہیں ہے۔حج اور جہاد کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدمت والدین کےلئے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کیوں کہ والدین کی خدمت دین اسلام کا ایک اہم تقاضا ہے۔اور اسے ادا کرتے رہنا چاہیے تاہم ادب واحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے والدین کو رفع الیدین کی سنت کا احساس دلایا جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس پیاری سنت کے ساتھ نمازیں ادا کرتے رہے تو ہم سب کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے نمازیں ادا کرنی چاہئیں اور اس سلسلہ میں والدین کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک کا بھی برتاؤ کیا جائے۔ امید ہے کہ اللہ کے ہاں رفع الیدین کی اہم سنت پر عمل کرنے میں آپ والدین کے نافرمان نہیں ٹھہریں گے۔ سوال۔رحیم یار خان سے محمد ادریس لکھتے ہیں کہ نماز کے اوقات اور ان کی ادائیگی کاطریق کار سکھانے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام دو دن مسلسل آتے رہے کیا مکی دور کے طریقے کار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں نماز کی ادائیگی کے متعلق کوئی فرق تھا تو اسے واضح کیا جائے جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نماز میں رفع الیدین پہلے تھا، بعد میں منسوخ کردیا گیا، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں؟ جواب۔مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے پاس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواوقات و طریقہ نماز بتانے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو نماز کے متعلق کچھ نئے احکام نازل ہوئے اور کچھ احکام ایسے بھی تھے کہ جن کی مدت ختم ہونے پر انہیں ختم کردیاگیا۔ مثلاً دوران نماز پہلے کسی ضرورت کے پیش نظر گفتگو کرنے کی اجازت جسے منسوخ کردیا گیا ۔چنانچہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: '' کہ ہمیں پہلے دوران نماز گفتگو کی اجازت تھی ،پھر جب آیت نازل ہوئی کہ اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔''(بخاری کتاب العمل فی صلاۃ باب ما ینھی من الکلام فی الصلوۃ ، رقم 1200) پھر ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔
Flag Counter