علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔(ارواء الغلیل :2/53) ( حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے، اس کے بعد مذکورہ دعا پڑھتے۔(دارقطنی :حدیث نمبر 1135) اس حدیث انس رضی اللہ عنہ کو امام طبرانی نے بھی بیان کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ( حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعا ً یہ دعا مروی ہے لیکن اس کے بعد وجھت وجھی للذی کابھی ذکر ہے۔(بیہقی :1/35) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً یہ دعا پڑھنا منقول ہے۔(صحیح مسلم :الصلوۃ 892) لیکن مسلم کی روایت میں انقطاع ہے۔ کیوں کہ اس میں ایک راوی عبد ہے جس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے لیکن امام دارقطنی نے یہ موقوف روایت متعدداسانید سے موصولا بیان کی ہے۔(دار قطنی :حدیث نمبر 1130 تا 1133) دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو مرفوعا ً بھی بیان کیا ہے تاہم وضاحت کردی ہے کہ اس کا موقوف ہونا صحیح ہے۔(دارقطنی :حدیث نمبر 1129) اس روایت کے پیش نظر بہتر ہے کہ صحیحین کی روایت کے مطابق نماز کے آغاز میں ''اللھم باعد بینی ''پڑھی جائے لیکن اگر کوئی سہولت کے پیش نظر'' سبحانك اللهم وبحمدك پڑھتا ہے تو یہ بھی صحیح ہے۔ متعدد محدثین کرا م رضی اللہ عنہ نے مجموعی طور پر مذکورہ بالا روایت کو صحیح اور قابل حجت قرار دیا ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔پیراں غائب سے محمد اشرف ندیم سوال کرتے ہیں کہ نماز ظہر اور نماز عصر کی پہلی رکعت میں ثنا پڑھی جاتی ہے، کیا ا س کی دوسری رکعات میں بھی اسے پڑھنا چاہیے۔ جواب۔واضح رہے کہ ثنا کا پڑھنا نماز کے آغاز میں ہے، یعنی اسے پہلی رکعت میں پڑھنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے نماز کے افتتاح میں پڑھتے تھے۔''(جامع ترمذی :کتاب ا لصلوۃ 242) اس بنا پر دوسری یا تیسری رکعت میں اسے نہیں پڑھنا چاہیے ،اگر کوئی آدمی نماز میں امام کے ساتھ پہلی رکعت کے علاوہ دوسری، تیسری یاچوتھی رکعت میں شامل ہوتا ہے تو اسے ثنا پڑھنی چاہیے۔کیوں کہ بعد میں شامل ہونے والے کی یہ پہلی رکعت ہے، ہاں اگر اتنا وقت نہ ہو اور امام کےرکوع میں چلے جانے کا اندیشہ ہو تو پھر صرف سورۃ فاتحہ پڑھ لی جائے کیوں کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، اس لئے رکعت فوت ہونے کے اندیشہ کے پیش نظر ثنا کو چھوڑا جاسکتا ہے۔ سوال۔ملتان سے محمد گلزار عابد سوال کرتے ہیں کہ میں نماز میں رفع الیدین ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھ کر کرتا ہوں جب کہ میرے والدین اس کے خلاف ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ ا س سنت کوچھوڑ دیا جائے ،چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور جہاد کے موقع پر اطاعت والدین کو ترجیح دی تھی۔اب مجھے بتایا جائے کہ والدین کی اطاعت کس حد تک کروں تاحال سنت پر سختی سے پابند ہوں لیکن پریشان رہتا ہوں کہ اللہ کےہاں والدین کا نافرمان نہ لکھا جاؤں، کیا مجھے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا چاہیے یا والدین کی اطاعت کرتے ہوئے اسے ترک کردینا چاہیے؟ |