ایک ر وایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ پڑھتے تو ٹھہرتے ،پھر الرحمٰن الرحيم پڑھتے تو پھر ٹھہرتے۔(ترمذی:القراءت 2927) ان احادیث کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ مساجد کے قرائے کرام کو کم ا ز کم ترجمہ قرآن ضرور پڑھے ہونا چاہیے تو آیات کے اختتام کےوقت انھیں پتہ ہو کہ ان کے ما بعد آیات سے تعلق ہے یا نہیں۔تاہم اگر کوئی اس بات کا خیال نہیں رکھتا تو اس سے نماز کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ سوال۔دوران نماز قراءت کےلئے کیا قرآنی سورتوں کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے؟ جواب۔نماز یا غیر نماز میں قرآن مجید کو موجودہ ترتیب کے برعکس پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں آخری مرتبہ جو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے قرآن مجید کا دور کیا تھا وہ اس موجودہ ترتیب کے مطابق تھا تاہم قراءت کے وقت اس کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں ہے۔مجتہد مطلق اور فقیہہ کامل حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے کہ ''دو سورتوں کا ایک رکعت میں پڑھنا''سورتوں کی آخری آیات کی تلاوت موجودہ ترتیب کے برعکس سورتوں کا پڑھنا یا سورتوں کی ابتدائی آیات کا پڑھنا''پھر آپ نے اپنا دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل دیئے ہیں جو حسب ذیل ہیں: ( احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے پہلی رکعت میں سورہ کہف اور دوسری رکعت میں سورہ یوسف یا سورہ یونس کو تلاوت کیا ،پھر وضاحت فرمائی کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں صبح کی نماز اداکی تو آپ نے اسی طرح پہلی رکعت میں کہف اور دوسری میں سورہ یوسف یا یونس کو تلاوت فرمایا۔(صحیح بخاری) ( حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے ان دو سورتوں کا بخوبی علم ہے جنھیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر نماز میں پڑھا کرتے تھے۔(صحیح بخاری) ان سورتوں کی تفصیل سنن ابی داؤد میں موجودہے، ان میں متعدد سورتوں کے جوڑے موجودہ ترتیب کے خلاف ہیں۔مثلاً سورۃ طور اور ذاریات، سورۃ تطفیف اور عبس ،سورۃ نبا اور مرسلات، سورۃ دھر اور قیامہ و غیرہ۔ ( حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:'' کہ ایک انصاری مسجد قباء میں امامت کے فرائض سرانجام دیتا تھا اور وہ سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص پڑھ کر پھر کوئی اور سورت ساتھ ملا تا، اسی طرح دوسری رکعت میں کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کاتذکرہ ہوا تو آپ نے اس عمل کی تصویب فرمائی۔''(صحیح بخاری) ( ان دلائل کے علاوہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رکعت میں سورہ بقرہ، سورہ نساء ،پھر سورۃ آل عمران تلاوت فرمائی۔(صحیح مسلم حدیث نمبر :7721) ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ ترتیب کے برعکس پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔(واللہ اعلم بالصواب) سوال۔ملتان سے بیگم عبد الاحد خریداری نمبر 1017 لکھتی ہیں کہ نماز میں قراءت کرتے وقت قرآنی سورتوں کی ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے یا اسے بلا ترتیب بھی پڑھا جاسکتا ہے، نیز عصر یا ظہر کی آخری دو رکعت میں فاتحہ کے علاوہ قراءت کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ |