ہے، جب وہ اس آیت سے ساری امت مراد لے) اگر وہ کہے کہ اس آیت میں بعض امت مراد ہے،تو اس کا مقصود پورا ہی نہیں ہوتا۔ 2.ابن دحلان نے مذکورہ آیت میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کو عام قرار دیا ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آنا اور آپ کی وفات کے بعد قبر پر آنا ،دونوں کو شامل کیا ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آسکا کہ عام لفظ صرف ان چیزوں کے لیے عام ہوتا ہے، جو اس لفظ کے تحت داخل ہوتی ہیں ۔ کسی شخص کی قبر پر آنا لغوی ،شرعی اور عرفی کسی بھی طور پر اس شخص کے پاس آنے کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے پاس آنے کا مطلب صرف اور صرف اس کی ذات کے پاس آنا ہوتا ہے۔ اس سے زائد کچھ سمجھنا قطعاً غلط ہے۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس سے زائد بھی کچھ سمجھا جا سکتا ہے، تو ہمارا اس سے سوال ہے کہ اس لفظ میں ہر زائد چیز شامل ہو گی یا وہ ہر زائد چیز جس کا تعلق اس شخص سے ہوگا یا صرف قبر ہی؟ پہلی بات،یعنی ہر زائد چیز کو عموم میں شامل کرنے کی بات کوئی ذی شعور نہیں کہہ سکتا۔ اگر دوسری بات اختیار کی جائے(یعنی اس شخص سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں اس عموم میں شامل ہیں )تو اس فاسد قول سے یہ لازم آئے گاکہ کسی کے گھر آنے سے ،اس کی بیوی کے پاس آنے سے، اس کی اولاد کے پاس آنے سے ، اس کے دوستوں کے پاس آنے سے ، اس کے خاندان کے پاس آنے سے ، اس کے رشتہ داروں کے پاس آنے سے ، |