پڑے گا اور اس کے لیے واپسی بھی مشکل ہوجائے گی اور دیگر بہت سی ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا حل نہایت مشکل یا ناممکن ہے۔ اس اضطرار (مجبوری) کی وجہ سے علماء نے ایام حج میں حیض کی بندش کی دوائی کھانے کی اجازت دی ہے لیکن رمضان المبارک میں اس قسم کی مشکلات نہیں ہیں ، اس لیے محض روزوں کی تعداد پوری کرنے کی نیت سے ایک فطری عمل کو روکنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بنابریں رمضان المبارک میں ایسی دوائی کا استعمال ہماری رائے میں جائز نہیں ہونا چاہیے جس سے حیض کی بندش ہوجائے۔ عورت کا یہ جسمانی نظام اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے، اس نے اس کی وجہ سے عورت کو ان ایام کے چھوڑے ہوئے روزوں کو بعد میں پورا کرنے کی رخصت و اجازت بھی مرحمت فرمائی ہے۔ اس نظامِ الٰہی کی پابندی نہایت ضروری ہے، اسی میں اس کے لیے خیروبرکت بھی ہے اور دین ودنیا کی سعادت بھی۔
نفلی روزوں میں عورت مرد کے جذبات کو پیش نظر رکھے
رمضان المبارک کے روزے تو ہر بالغ مرد اور عورت پر فرض ہیں ، ان روزوں کے لیے عورت کو خاوند سے نہ اجازت لینا ضروری ہے اور نہ مرد ہی کو یہ اجازت ہے کہ وہ بیوی کو روزہ رکھنے سے روکے۔ اگر وہ روکے گا تو سخت مجرم ہوگا اور عورت کے لیے بھی یہ حکم ہے کہ وہ اس صورت میں خاوند کی اطاعت کرنے سے انکار کردے، اس لیے کہ:
((لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصَیَۃِ الْخَالِقِ))
’’جہاں مخلوق کی اطاعت سے خالق (اللہ) کی نافرمانی لازم آتی ہو، وہاں مخلوق کی فرماں برداری جائز نہیں ۔‘‘[1]
|