قرآن حکیم کا حق تلاوت
اسلام نے انسان کے پیدا کیے جانے کا جو مقصد اور اس کی زندگی کا جو فریضہ بتایا ہے وہ اللہ کی عبادت ہے، عبادت بندگی کو کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسان عبد، یعنی بندہ بن کر ہی پیدا ہوا ہے وہ الٰہ اور خالق نہیں ہے بلکہ مخلوق اور بندہ ہے اس بنا پر اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ زندگی کا کوئی وقت اور کوئی حال اللہ کی بندگی اور فرماں برداری سے خالی نہ ہو کیونکہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں وقت تو اللہ کی عبادت و بندگی کے لیے ہے اور فلاں وقت اس کی عبادت و بندگی سے بے نیاز رہنے کا حق حاصل ہے۔
اس مقصود کو سمجھانے کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:
﴿ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾
یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’میں نے جن اور انسان کو اس کے سوا اور کسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری ہی عبادت کریں ۔‘‘[1]
یہی وہ عمل ہے جس کی بدولت انسان دنیا میں بھی امن و خوش حالی اور فلاح و ترقی کی نعمتیں اور برکتیں حاصل کر سکتا ہے اور اسی عمل پر آخرت کی نجات کا بھی دارومدار
|