لیکن عام لوگوں کے لیے زیادہ اجر کا یہ شوق الٹا بھی پڑسکتا ہے کہ وہ تراویح باجماعت بھی ادا نہ کریں اور گھر میں انفرادی طور پربھی نہ پڑھ سکیں ۔ اس لیے عام لوگوں کے لیے رمضان میں اول وقت، یعنی عشاء کی نماز کے ساتھ ہی باجماعت تراویح کی ادائیگی کا اہتمام بہت اچھا عمل ہے اور اس طرح ہر شخص نہایت آسانی سے اور تھوڑی سی ہمت اور شوق سے پوری رات کے قیام (عبادت) کا اجر حاصل کر سکتا ہے۔ زیادہ اجر حاصل کرنے کا شوق کہیں اسے رمضان کے اس قیام اللیل کے اجر سے بھی محروم نہ کر دے جس کی بڑی فضیلت احادیث میں بیان کی گئی ہے، مثلاً:
((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ))
’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان (کی راتوں ) میں قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘[1]
بنابریں عام لوگوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ تراویح باجماعت پڑھیں اور پوری آٹھ رکعت سنت کے مطابق پڑھیں ، اس میں تساہل نہ کریں تاکہ پوری رات کے قیام کے اجر کے وہ مستحق قرار پاسکیں ۔ البتہ تہجد کے عادی حضرات اسے گھر میں انفرادی طور پر تہجد کے وقت میں ادا کریں تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہے، وقلیلٌ ما ہم۔ لیکن ایسے لوگ کتنے ہوں گے؟ کثراللّٰہ أَمثالھم فینا۔
2. کیا تراویح صرف تین دن ہی پڑھی جائے؟
اس تفصیل سے دوسرے مسئلے کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ تراویح
|