مؤمن بندے کی توبہ سے سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے،اس بندہ سے بھی زیادہ جو کسی خطرناک صحراء میں ہو،اس کی سواری اس کے ساتھ ہو،جس پر اس کا کھانااورپانی موجودہو،اچانک اسے نیند آجاتی ہے اور وہ سو جاتا ہے،جب بیدارہوتاہے تو اپنی سواری کوغائب پاتاہے،اس کی تلاش میں چل نکلتا ہے ،حتی کہ پیاس سے ہلکان ہوجاتاہے،سوچتا ہے کہ جس جگہ پہلے ٹھہرا تھا وہیںلوٹ جاؤںاور لیٹ کر موت کا انتظار کروں۔چنانچہ وہاں اپنے بازوپر سررکھ کر،مرنے کیلئے لیٹ جاتاہے،اچانک آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتاہے کہ اس کی سواری سامنے کھڑی ہے،اس پر زادِ راہ ،کھانااورپانی سب موجودہیں۔اس وقت اس بندے کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہوگا؟اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے بھی زیادہ خوش ہوتاہے۔ بندے کے استغفار سے اللہ تعالیٰ کے خوش ہونے کا ذکر، ایک دوسری حدیث میں بھی موجودہے: عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنہ لما رکب دابتہ حمداللہ ثلاثا،وکبر ثلاثا وقال :سبحانک إنی ظلمت نفسی فاغفرلی فإنہ لایغفرالذنوب إلاأنت، ثم ضحک وقال:[إ ن ربک لیعجب من عبدہ إذا قال :رب اغفرلی ذنوبی، یعلم أنہ لایغفرالذنوب غیری.][1] |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |