لِّلْمُقْوِيْنَ۷۳ۚ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ ۧ ][1] یعنی:اچھا پھر یہ تو بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو کیا اس کا (انسان) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟ ہم ہی نے تم میں موت کو متعین کر دیا ہے اور ہم اس سے ہارے ہوئے نہیں ہیں کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں نئے سرے سے اس عالم میں پیدا کریں جس سے تم (بالکل) بےخبر ہو تمہیں یقینی طور پر پہلی دفعہ کی پیدائش معلوم ہی ہے پھر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے؟ اچھا پھر یہ بھی بتلاؤ کہ تم جو کچھ بوتے ہواسے تم ہی اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں اگر ہم چاہیں تواسے ریزه ریزه کر ڈالیں اور تم حیرت کے ساتھ باتیں بناتے ہی ره جاؤ کہ ہم پر تو تاوان ہی پڑ گیا بلکہ ہم بالکل محروم ہی ره گئے اچھا یہ بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو اسے بادلوں سے بھی تم ہی اتارتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟ اگر ہماری منشا ہو تو ہم اسے کڑوا زہر کردیں پھر تم ہماری شکرگزاری کیوں نہیں کرتے؟اچھا ذرا یہ بھی بتاؤ کہ جو آگ تم سلگاتے ہو اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں؟ ہم نے اسے سبب نصیحت اور مسافروں کے فائدے کی چیز بنایا ہے پس اپنے بہت بڑے رب کے نام کی تسبیح کیا کرو ۔ ان آیاتِ مبارکہ کو پڑھ کر یہ یقین اور بڑھ جاتاہے کہ کھلانے،پلانے اور پہنانے کے تمام اختیارات اللہ رب العزت کے پاس ہیں،اور انسان بے پناہ ترقی کے |
Book Name | حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 144 |
Introduction | یہ کتاب دراصل ایک حدیث کی تشریح پر مشتمل ہے ، یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور چونکہ اس کے راوی سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہیں اسی لئے اسی نام سے ذکر کی گئی ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے دس فرامین جو بندے کے لئے ہیں ان کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:شامی رواۃ کی یہ سب سے عمدہ حدیث ہے۔ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے شاگرد ابوادریس الخولانی جب بھی اس حدیث کو روایت کرتے تو بڑے ادب کے ساتھ دو زانو ہوکر بیٹھ جاتے،یہ حدیث عظیم المعانی اور کثیر المقاصد ہے،اس میں بہت سے اعتقادی،عملی اور تربوی مسائل کا خزانہ موجودہے۔ یقیناً اس حدیث کی شرح میں محترم شیخ صاحب نے بڑا علمی مواد جمع کردیا ہے۔ |